دین اور ریاست بحوالہ اسلام اور پاکستان

سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔

تیری ذات پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اُسی قدر جو تُو نے ہمیں سِکھایا ہے، بیشک تُو ہی جاننے والا حکمت والا ہے

میں نے اپنی ایک تحریر میں دین اور ریاست کے تعلق کے بارے لکھنے کا وعدہ کیا تھا جو اللہ کی مہربانی سے آج پورا ہونے جا رہا ہے ۔ چند سالوں سے کچھ لوگ غوغا کر رہے ہیں کہ دین ذاتی معاملہ ہے اور اس کا ریاست یا ریاستی امور سے کوئی تعلق نہیں ۔ موجودہ حکومت اور ملک کے 70 فیصد ذرائع ابلاغ اِس نظریہ کو ہوا دے رہے ہیں ۔ مطلب یہ ہوا کہ دین ذاتی معاملہ ہے کسی کا دل چاہے اس پر چلے یا نہ چلے حکومت اس قضیئے میں نہیں پڑے گی ۔

حکومت بالخصوص جمہوری حکومت کا کام عوام کی بہتری اور انہیں انصاف ۔ خوراک ۔ پوشاک ۔ تعلیم و تر بیت ۔جان و مال کا تحفظ اور دوسری ضروریاتِ زندگی مہیا کرنا ہوتا ہے ۔ غور کیا جائے تو یہ سب عوامل بھی ذاتی معاملات ہیں کیونکہ ان کے عمل و حصول میں ہر فرد کی ذاتی خواہش اور ذاتی فیصلہ حاوی ہوتا ہے ۔ لیکن ان لئے حکومت قوانین وضع کرتی ہے ۔ اگر یہ قوانین دین کو نظرانداز کر کے بنائے جائیں تو وہ دین کے خلاف بھی ہو سکتے ہیں ۔ اس طرح حکومتی قانون لوگوں کے انفرادی ذاتی معاملہ یعنی دین اسلام پر عمل میں دخل اندازی کرے گا ۔ دوسرے لفظوں میں حکومت کا قانون جمہور کو ان کے بنیادی حق سے محروم کر دے گا جو کہ جمہوری اصولوں کی نفی ہے ۔

میاں بیوی کے تعلقات سے بڑھ کر ذاتی نوعیت کسی اور عمل کی نہیں ۔ اس کے بعد ذاتی معاملہ جائیداد ہوتی ہے ۔ وکلاء جانتے ہوں گے کہ سب سے زیادہ مقدمات میاں بیوی کے تعلقات اور جائیداد سے جنم لیتے ہیں ۔ تو پھر کیا ذاتی معاملات ہونے کی وجہ سے حکومت اس سلسلہ میں قوانین وضع نہیں کرے گی یا دین اسلام کے خلاف قوانین بنائے گی ؟ دوسری طرف دین جسے ذاتی معاملہ کہا جاتا ہے اس میں ان دونو معاملات کے سلسلہ میں واضح احکام موجود ہیں جو کہ قرآن شریف میں بڑی وضاحت کے ساتھ آئے ہیں اور مسلمانوں پر فرض ہیں ۔ مزید یہ کہ جمہوریت میں قوانین ملک کے تمام لوگوں کی سہولت کیلئے ہوتے ہیں مگر اکثریت کے خیالات و احساسات کا خصوصی خیال رکھا جاتا ہے اور اس سے بھی کوئی اختلاف نہیں کر سکتا کہ پاکستان میں مسلمان بہت بھاری اکثریت میں ہیں ۔ چنانچہ متذکرہ جھگڑوں کا فیصلہ کرنے کیلئے اگر غیراسلامی قوانین اپنائے جائیں تو یہ جمہوری اصولوں کے خلاف ہو گا ۔

دین اسلام زندگی گذارنے کا ایک جامع طریقہ ہے جو اس کائنات کے خالق و مالک نے ہمیں بتایا ہے ۔ اس میں ذاتی معاملات صرف وہ ہیں جن میں انسان کی وہ عبادت شامل ہے جس سے اللہ اور اسکی اپنی ذات کے سوا کسی اور کا تعلق نہ ہو ۔ باقی سب معاملات اجتماعی ہیں اور ان سب کیلئے احکام قرآن و سنّت میں موجود ہیں ۔ حکومت قانون سازی کی ذمہ دار ہے اور چونکہ ملک میں بھاری اکثریت مسلمانوں کی ہے اسلئے جمہوری اصولوں کے تحت آئین اور قوانین میں مسلمانوں کے دین کا عمل دخل ضروری ہے ۔

مزید یہ کہ پاکستان کے آئین میں اسلام کو ریاست کا دین قرار دیا گیا ہے اسلئے ساری قانون سازی قرآن و حدیث کے مطابق جمہوری ۔ عوامی اور آئینی ضرورت ہے جو کہ آج تک نہیں کی گئی اور جنہوں نے اختیارات ہوتے ہوئے نہیں کی وہ نہ صرف اللہ کے بلکہ عوام کی اکثریت کے بھی مُجرم ہیں ۔

حقیقت یہ ہے کہ دین اسلام رہبانیت سے روکتا ہے اور احسن طریقہ سے اجتماعی زندگی گذارنے کی تلقین کرتا ہے ۔ باجماعت نماز ۔ نمازِ جمعہ ۔ نمازِ عید اور حج میں جن اجتماعی روّیوں کی تربیت دی گئی ہے وہ کسی اور مذہب میں موجود نہیں ۔ چارلس اے کروہن جو یو ایس آرمی کے پبلک افیئرز کے ڈپٹی چیف [Deputy Chief of Public Affairs of the US Army] کی حثیت سے جنگ کا تجربہ رکھتے ہیں اور اب امریکی جنگی یادگاروں کے پبلک افیئرز کے ڈپٹی ڈائریکٹر [Deputy Director, American Battle Monuments Commission] ہیں حج کی اجتماعیت کے فوائد سے متأثر ہو کر لکھتے ہیں

Muslims are obliged to make at least one trip to the holy city of Mecca during their lifetime. This pilgrimage is known as the hajj. It is mandatory for men, voluntary but encouraged for women. A basic dress code ensures that there’s no visible difference between rich and poor, weak and powerful. This simple requirement unites the faithful.

What if every American who is able to do so made an effort to visit at least one American military cemetery overseas during his or her lifetime? Americans visiting our overseas military cemeteries will find themselves enriched in ways I can only partially explain. At a minimum, the visit will prompt a renewed, and awesome, appreciation of those who sleep in the dust below.

The notion of an American hajj has loopholes, I know. But the thought of an activity or sacrifice that draws us together has merit, and we need this coming together now more than ever.

اگر دین کا معاملہ فرد پر چھوڑ دیا جائے اور دین پر عمل نہ کرنے والے کسی فرد یا گروہ کے دینی عمل میں حائل ہوں تو کس طرح اس فرد یا گروہ کو اپنا حق دلوایا جائے گا اگر قوانین غیر اسلامی ہوں گے ؟ خیال رہے کہ جمہور کے بنیادی حقوق کا تحفظ جمہوری حکومت کا اوّلین فرض ہے ۔

عملی طور پر انسان کے بنائے ہوئے ریاستی قوانین میں اجازت نہیں ہوتی کہ کوئی شخص اجتماعی معاملات میں قانون پر عمل کرے اور ذاتی معاملات میں قانون کی خلاف ورزی کرے ۔ اسلئے اگر بالفرضِ محال دین کو ذاتی معاملہ کہہ دیا جائے تو کیا کسی شخص کو اجازت ہو گی کہ وہ دین پر عمل کرتے ہوئے حکومت کے قوانین کی خلاف ورزی کرے ؟ جبکہ کہ حکومتی قوانین میں دین کا کوئی عمل دخل نہیں ہوگا ۔

اصل مسئلہ یہ ہے کہ دین کو حکومت میں داخل کر دیا جائے تو جنرل پرویز مشرف اور بہت سی قباحتوں کے علاوہ سڑک پر سے گذرنے کیلئے ہزاروں لوگوں کا راستہ بند نہیں کروا سکیں گے جن میں سیکنڑوں مریض گھنٹوں تڑپتے ۔ ننھے بچے بِلکتے اور کئی بار شدید بیمار گھنٹوں محصور رہنے کی وجہ سے امبولینسوں میں مر چکے ہیں ۔ اور نہ ہی نام نہاد روشن خیالی کے پرستار عیاشیاں کر سکیں گے ۔ دین کو ریاست سے الگ کرنے کی وکالت کرنے والوں کا یہ بھی کہنا ہے کہ قرآن شریف میں حکومتی امور کا کوئی ذکر نہیں ۔ دیکھتے ہیں کہ قرآن میں کیا لکھا ہے ۔

حاکم کی اطاعت

سورت ۔ 4 ۔ النساء ۔ آیت 59۔ اے ایمان والو ۔ اطاعت کرو اللہ کی اور اطاعت کرو رسول کی اور ان لوگوں کی جو تم میں صاحب امر ہوں پھر اگر تمہارے درمیان کسی معاملہ پر نزاع ہو جائے تو اسے اللہ اور رسول کی طرف پھیر دو اگر تم واقعی اللہ اور روزِ آخر پر یقین رکھتے ہو ۔ یہی ایک صحیح طریقۂ کار ہے اور انجام کے اعتبار سے بھی بہتر ہے ۔

حاکم کیلئے حُکم

دین کو ریاست سے الگ رکھنے کے حامی یہ تو مانتے ہیں کہ پاکستان مسلمانوں کا ملک ہے اور اس کے حاکم بھی مسلمان ہیں ۔ دیکھتے ہیں کہ مسلمان حاکم کیلئے اللہ کا کیا حکم ہے ؟

سورت ۔ 6 ۔ الانعام ۔ آیت 165 ۔ اور وہی ہے جس نے تم کو زمین میں نائب بنایا اور تم میں سے بعض کو بعض پر درجات میں بلند کیا تاکہ وہ ان (چیزوں) میں تمہیں آزمائے جو اس نے تمہیں عطا کر رکھی ہیں ۔ بیشک آپ کا رب جلد سزا دینے والا ہے اور بیشک وہ بڑا بخشنے والا اور بے حد رحم فرمانے والا ہے

سورت ۔ 22 ۔ الحج ۔ آیت 41 ۔ یہ وہ لوگ ہیں کہ اگر ہم نے انہیں زمین میں صاحب اقتدار کردیا تو وہ نماز قائم کریں گے ۔ ادائے زکوٰت میں سرگرم رہیں گے ۔ نیکیوں کا حُکم دیں گے ۔ برائیوں سے روکیں گے اور تمام باتوں کا انجام کار خدا کے ہاتھ میں ہے ۔

سورت النساء میں صاحبِ امر یعنی حاکم کی اطاعت کا حُکم دیتے ہوئے ساتھ شرط لگا دی گئی ہے کہ حکمران سے اختلاف ہو جانے کی صورت میں وہ کرو جس کا اللہ اور اس کے رسول نے حُکم دیا ہے ۔ اور سورت الحج میں مسلمانوں کے حکمران کے ذمہ کر دیا گیا کہ وہ نماز قائم کرے ۔ ادائے زکوٰت میں سرگرم رہے ۔ نیکیوں کا حُکم دے اور برائیوں سے روکے ۔ اگر دین کو ریاست سے الگ کر دیا جائے گا تو یہ سب کس طرح ممکن ہو گا ؟

انصاف ۔ اللہ کا حکم اور حکومت کا جمہوری فرض بھی

جمہوریت میں انصاف حکومت کا اہم ترین فرض ہوتا ہے ۔ نظامِ انصاف حکومت کے تین اہم ستونوں میں سے ایک ہے ۔ دیکھتے ہیں اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے اس سلسلہ میں کیا حُکم دیا ہے اور کیا اس پر عمل کرنا اور کروانا مسلمان حکمران کا فرض نہیں ؟

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 42 ۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حق کو چھپانے کی کوشش کرو ۔

سورت ۔ 2 ۔ البقرہ ۔ آیت 283 ۔ ۔ ۔ ۔ اور شہادت ہرگز نہ چھپاؤ ۔ جو شہادت چھپاتا ہے اُس کا دل گناہ میں آلودہ ہے ۔ اور اللہ تمہارے اعمال سے بے خبر نہیں ہے ۔

سورت ۔ 4 ۔ النّساء ۔ آیت 58 ۔ بیشک اللہ تمہیں حُکم دیتا ہے کہ امانتیں انہی لوگوں کے سپرد کرو جو ان کے اہل ہیں ۔ اور جب تم لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ فیصلہ کیا کرو ۔ بیشک اللہ تمہیں کیا ہی اچھی نصیحت فرماتا ہے ۔ بیشک اللہ خوب سننے والا خوب دیکھنے والا ہے

سورت ۔ 4 ۔ النّساء ۔ آیت 135 ۔اے ایمان والو! تم انصاف پر مضبوطی کے ساتھ قائم رہنے والے اللہ کے لئے گواہی دینے والے ہو جاؤ خواہ [گواہی] خود تمہارے اپنے یا والدین یا رشتہ داروں کے ہی خلاف ہو، اگرچہ [جس کے خلاف گواہی ہو] مال دار ہے یا محتاج ۔ اللہ ان دونوں کا زیادہ خیر خواہ ہے۔ سو تم خواہشِ نفس کی پیروی نہ کیا کرو کہ عدل سے ہٹ جاؤ اور اگر تم پیچدار بات کرو گے یا پہلو تہی کرو گے تو بیشک اللہ ان سب کاموں سے جو تم کر رہے ہو خبردار ہے

اسی طرح معیشت اور معاشرت کے متعلق واضح احکامات قرآن و سنّت میں موجود ہیں ۔ سب کے حوالے دینے سے مضمون بہت طویل ہو جائے گا ۔ ان سب کا تعلق اجتماعی زندگی سے ہے ۔ پھر کیسے ممکن ہے کہ دین اسلام کو فرد کا ذاتی معاملہ قرار دیا جائے ؟

وما علینا الالبلاغ

This entry was posted in دین, معاشرہ on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

5 thoughts on “دین اور ریاست بحوالہ اسلام اور پاکستان

  1. راہبر

    بہت خوب اجمل صاحب! ہمیشہ کی طرح ماشاء اللہ بہت علمی تحریر ہے۔ میں خود اس بات کا قائل رہا ہوں کہ دین (خاص طور سے اسلام) اجتماعی معاملہ ہے، صرف انفرادی یا ذاتی حیثیت تک محدود نہیں ہے۔ تاہم مغربی نظریات کا آج کل ڈنکا بجایا جارہا ہے۔ ایسے میں آپ کی تحاریر روشنی کی کرنیں ہیں۔

  2. ali

    Jazakumullahu khairul jazaa for another good article. Keep up the good work. Your blog needs to be heavily advertised so that more and more people benefit from your thoughts.

  3. اجمل

    علی صاحب – السلام علیکم
    اللہ آپ کو جزائے خیر دے ۔ آمین ۔ آپ کے نظریہ کیلئے مشکور ہوں ۔ میں تو لکھ ہی رفاہِ عام کیلئے رہا ہوں ۔ اگر آپ سمجھتے ہیں کہ میری تحاریر پڑھنے کے قابل ہیں تو ضرور اپنے عزیزوں اور دوستوں کو بتائیے ۔ مجھے خود سے اشتہار بازی کرنا کچھ اچھا نہیں لگتا

  4. wahaj/bsc

    I had gone out of town so my comment is late but appropriate. In fact I have had this thouhght for a long time.
    Surah “Al-Ahzaab” (Very powerful and one of my favorite) Ayah 36: “It is not fitting for a believer man or a woman, when a matter has been decided by Allah and His apostle, to have any option about their decision…..”
    Is it appropriate then to ‘vote’ whether the governance should be based on Shariah (yes or no voting)? I mean do we have a choice?

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.