کمپیوٹر سے پہلی ملاقات

محب علوی صاحب نے کچھ دن قبل اسلام آباد کے سِیرینا ہوٹل میں ایک کمپیوٹر سافٹ ویئر کانفرنس کا حال لکھا تھاجس نے مجھے گذرا زمانہ یاد کرا دیا ۔ ستمبر 1985 عیسوی میں مجھے جنرل منیجر ایم آئی ایس [Management Information Systems] لگا دیا گیا ۔ ایم آئی ایس میں پاکستان کا پہلا اور سب سے بڑا کمپیوٹر سنٹر تھا جس میں آئی بی ایم کا مین فریم کمپیوٹر نصب تھا ۔ اُن دنوں مجھے کمپیوٹر کی سُدھ بُدھ نہ تھی ۔ جو صاحب کمپیوٹر سینٹر کے انچارج تھے وہ مجھ سے بہت جونیئر تھے مگر اسی گریڈ میں پہنچ گئے تھے جس میں کہ میں تھا ۔ اُنہوں نے مجھے اتنا ڈرایا کہ جیسے میں ساری عمر کمپیوٹر کو سمجھ نہ سکوں گا ۔

اللہ کا کرنا ایسا ہوا کہ وسط 1986 عیسوی میں مجھے Computerised Inventory Management System کی development اور implementation کا پروجیکٹ دے دیا گیا ۔ میرے لئے Inventory Management System تو مشکل کام نہ تھا کیونکہ یہ پروجیکٹ تو اللہ کے فضل سے میں 1970 عیسوی سے قبل اپنی فیکٹری کیلئے سرانجام دے چکا تھا جہاں ہزاروں قسم کے materials اور tooling تھی مگر کمپیوٹر سینٹر کے انچارج مجھے کمپیوٹر سینٹر سے دور رکھنے کیلئے پورا زور لگا رہے تھے ۔ میں نے بغیر اس کی شکائت کئے زیادہ کام کا بہانہ بنا کر اعلٰی سطح پر بات کی اور تین پی سی XT8088 خرید لئے اُن میں 20MBکی ہارڈ ڈسک ڈرائیوز لگی ہوئی تھیں جسے دیکھنے کیلئے دُور دُور سے لوگ آتے تھے کیونکہ آئی بی ایم کے مین فریم کمپیوٹر کی Storage capacity کل 50MB تھی ۔ میں نے دو اور انجنیئروں کو ساتھ ملا کر ان کمپیوٹروں پر ابتدائی کام شروع کردیا ۔

تمام کوائف اکٹھا کرنے کے بعد جب میں نے سسٹم اور مطلوبہ صفحات ڈیزائین کر لئے تو کمپیوٹر سینٹر کو مربوط سافٹ ویئر ڈویلوپ کرنے کا حکم دلوا دیا ۔ دو ماہ گذر گئے مگر کمپیوٹر سینٹر کے درجن بھر ماہرین کچھ بھی نہ کر سکے ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ ڈنمارک کی ایک کمپنی کے متعلقہ ماہرین کی خدمات حاصل کی گئیں جو بنا بنایا پیکیج دینا چاہتے تھے مگر وہ ہمارے کام کیلئے زیادہ مفید نہ تھا ۔ فیصلہ ہوا کہ میں اُن کے ساتھ مل کر کام کروں گا ۔ پراجیکٹ بہت وسیع اور مشکل تھا پھر بھی اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی نے 18 ماہ میں سافٹ ویئر ڈیویلوپ کرا دی ۔ جب data entry کا وقت آیا ۔ تب مجھے خیال آیا کہ اگر ایک آئیٹم کو غلطی سے دو بار فَولِیو الاٹ کردیا ۔ یا ایک فَولِیو پر دو آئیٹم درج کر دیئے ۔ تو ایسی غلطی پکڑنا بہت ہی مشکل ہو گا کیونکہ آئیٹمز کی تعداد پچاس ہزار سے زیادہ تھی اور یہ مختلف فیکٹریوں سے تعلق رکھتے تھے ۔ میں نے پھر کمپیوٹر سنٹر کے انچارج سے کہا کہ کوئی ایسی سافٹ ویئر بنا دیں کہ duplication نہ ہو ایک ماہ گذر جانے کے بعد بھی اُنہوں نے کوئی جواب نہ دیا ۔

میں مئی 1987 عیسوی میں اپنا ذاتی پی سی خرید چکا تھا اور میرا بڑا بیٹا زکریا اس پر 4 ماہ کی طبع آزمائی کا تجربہ حاصل کر چکا تھا ۔ میں نے زکریا سے کہا کہ مجھے ایسا پروگرام بنا دے کہ duplication نہ ہو ۔ اس نے مجھے دو تین دن میں BASIC میں ایک چھوٹا سا پروگرام لکھ کر دیا جس کی میں نے testing کی اور وہ ٹھیک ثابت ہوا ۔ اس سے اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ Computer work میں شوق سے کامیابی ہوتی ہے نہ کہ اسناد [Certificates] اکٹھا کرنے سے ۔ بدقسمتی سے ہمارے ملک میں اسناد اکٹھا کرنے کا شوق بہت ہے ۔ کام کرنے والے کم ہیں ۔ ہمارے کمپیوٹر سینٹر کے انچارج صاحب نے آئی بی ایم کی کئی درجن اسناد حاصل کی ہوئی تھیں ۔

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

2 thoughts on “کمپیوٹر سے پہلی ملاقات

  1. ابو حلیمہ

    السلام علیکم،۔
    واہ، کی یاد کرا دتا جے۔
    کمپیوٹر سے تعلق ہم نے بھی سن چھیاسی میں جوڑا۔ شروع میں
    XT-8088
    پر ہی کام کیا اور استعمال بھی
    BASICA
    ہی کیا۔ لیکن چونکہ کمپیوٹر ہمارا اپنا نہ تھا اس لیے مہارت حاصل نہ کر سکا۔ تبھی سے ہم تینوں بھأیوں نے ضد لگا لی کہ کمپیوٹر چاہیے۔ ماں باپ نے شروع میں تو کؤی زیادہ دھیان نہیں دیا کہ یہ چھٹی ساتویں کہ بچوں کو کمپیوٹر آخر کرنا کیا ہے۔ بس اسی طرح کچھ سالوں تک اپنا شوق اپنے ایک استاد کے کمپیوٹر کو استعمال کر کے پورا کرتے رہے۔ آخر کار سن انانوے میں ہمیں نیا کمپیوٹر خرید دیا گیا۔ اس وقت کا سب سے اپ ٹو ڈیٹ کمپیوٹر۔
    PC 286 AT
    33 MB HD
    2 x 5.25″ 1.2MB floppy drives
    VGA Monitor
    Epson Dot Matrix Printer (I forgot the model)
    کچھ عرصہ بعد اس کو اپگریڈ کر دیا۔

    PC 386 DX
    1X CD ROM ( had to import it from US)
    Creative Soundblaster 32 (bought it from a friend who got it from UK)

    اس کمپیوٹر پر اور کچھ زیادہ تو نہیں لیکن
    LOTUS 123
    بہت اچھی طرح سیکھ لی۔ ان دنوں پاکستان میں
    BBS (Bulletin Board Service)
    کا بڑا چرچا تھا چنانچہ ہم نے بھی اپنا ایک بی بی ایس
    undertaker bbs
    کے نام سے کھول لیا جو دو سال تک چلایا۔
    اس وقت کے دوسرے بی بی ایس جو راولپنڈی اسلام آباد میں مشہور تھے وہ تھے :
    Avenger BBS
    Raabita BBS
    Voyager BBS
    چونکہ ان دنوں میں انٹرنیٹ ابھی پاکستان میں نہیں آیا تھا، اس لیے ای میل کے لیے
    undp (sdnpk)
    کا سہارا لیا۔ اس کے بعد نیوز گروپس سے واسطہ پڑا اور تب تک رہا جب تک پاکستان میں
    text-based internet
    نہ آ گیا۔
    میں پاکستان سے کینیڈا جب آیا اس وقت پاکستان میں گرافکس بیسڈ انٹرنیٹ نہیں آیا تھا۔

  2. اجمل

    ابو حلیمہ صاحب
    LOTUS123
    ایک اچھا حسابی پروگرام تھا اور ہے ۔ میں کسی زمانہ میں لوٹس کا ماہر گنا جاتا تھا ۔ میں اب بھی لوٹس پر کام کرتا ہوں ۔ ایکسل یس کا مقابلہ نہیں کر سکتا ۔ میں نے بعد میں کمپیوٹر اس ترتیب سے بدلے
    AT286
    AT386
    AT486DX
    Pentium II
    Pentium III
    Pentium III 533MHz with 133 Transfer Bus
    یہی آجکل میرے پاس ہے ۔ میرے بچوں کے پاس جدید ترین کمپیوٹر ہیں وہ مجھے بھی بدلنے کا کہتے رہتے ہیں مگر مجھے یہ پسند ہے ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.