Monthly Archives: June 2007

ماں کے نام

ميری والدہ مُحترمہ 25 جون 1980 بروز بدھ عصر کی نماز کے بعد تسبيح کر رہی تھيں کہ برين ہَيموريج [Brain Hemorrhage] ہوگيا اور وہ بے سُدھ ہو گئيں [went in to coma] ليکن اِس حالت ميں بھی جيسے تسبيح کرتے ہيں وہ اُنگليوں پر کچھ پڑھ کر اپنے اُوپر پھونکتی رہيں حتٰی کہ 29 جون کو ہولی فيملی ہسپتال راولپنڈی ميں اِس دارِ فانی سے رِحلَت کر گئيں ۔ اللہ سُبحانُہُ و تعالٰی اُنہيں جنّت الفردوس ميں جگہ عطا فرمائے ۔ آمين ۔

يہ نظم ميں نے والدہ مُحترمہ کی وفات کے پانچ چھ ہفتے بعد لکھی تھی ۔ ميں نے جو نظم والدہ محترمہ کی وفات سے کچھ دن بعد لکھی تھی وہ نظرِ قارئين کر چکا ہوں اور يہاں کلِک کر کے پڑھی جا سکتی ہے ۔

کتنے نازوں ميں تو نے کی ميری پرورش
تجھے ہر گھڑی رہتا تھا بہت خيال ميرا
تيری دعاؤں ميں رہا سدا ميں شامل
تيری موت نے مگر کيا نہ انتظار ميرا
يہ زندگی کس طرح گذرے گی اب
نہ دل ہے ساتھ ميرے نہ دماغ ميرا
ميں جو کچھ بھی ہوں فقط تيری محنت ہے
نہ یہ ميری کوئی خوبی ہے اور نہ کمال ميرا
ميری اچھی امّی پھر کريں ميرے لئے دعا
کسی طرح آ جائے واپس دل و دماغ ميرا
تيرے سِکھلائے ہوئے حوصلہ کو واپس لاؤں
پھر کبھی چہرہ نہ ہو اس طرح اشک بار ميرا
تيرے سمجھائے ہوئے فرائض نبھاؤں ميں
کٹھن راہوں پہ بھی متزلزل نہ ہو گام ميرا
روز و شب ميں پڑھ پڑھ کر کرتا رہوں دعا
جنّت الفردوس ميں اعلٰی ہو مقام تيرا

مُنصِف کی حِسِ مزاح

حکومتی ریفرینس کے خلاف چیف جسٹس صاحب کی پیٹیشن سنتے ہوئے عدالتِ عُظمیٰ کے 13 رُکنی بنچ کے سربراہ جسٹس خلیل الرحمان رمدے صاحب نے کہا ” اگر حکومتی وکلاء کی باتیں مان لی جائیں تو ایک دن ہمارے گھر والے بھی سپریم کورٹ کے باہر یہ بینر لے کر کھڑے ہوں گے ” ۔

سپریم کورٹ کا بتا کر گئے تھے اور اب تک واپس نہیں آئے

Action & Not Propaganda ڈفلی نہیں ۔ عمل ۔

میں زندگی بھر صحرا نورد اور طالبِ علم رہا ہوں ۔ میرا زیادہ وقت علمِ نافع کی کھوج میں گذرتا ہے تاکہ میں اپنی سمت درست سے درست تر کر سکوں ۔ تقاضہ کیا گیا تھا کہ اُردو محفل میں حاضری دوں ۔ چنانچہ میں نے وسط مئی میں اُردو محفل کی رُکنیت اختیار کی ۔ میں سمجھا تھا کہ فلاحی نظریات کی ترویج کیلئے مجھے دعوتِ دی گئی اور اسی لئے دو درجن خواتین و حضرات نے میرا پُر جوش خیر مقدم کر کے میری حوصلہ افزائی کی ۔ اس یقین اور اُمید کے ساتھ کہ سب نہ صرف جانتے ہیں بلکہ حامی ہیں ۔ میں نے ایک ایسے موضوع سے آغاز کیا جو زبان زدِعام ہے اور اہلِ وطن کی اکثریت اپنی نجی محافل میں اس پر گُل فشانی کرتی رہتی ہے یعنی بہبودِ عامہ ۔

میں نے 21 اور 23 مئی کو یہ موضوع اُردو محفل کے سامنے رکھا مگر “جو بیچتے تھے دوائے دل وہ دُکان اپنی بڑھا گئے ” کے مِصداق ایک ماہ گذرنے کے بعدبھی میری التماس توجہ کی محتاج ہے ۔ بہبودِ عامہ ہر شخص کی ذمہ داری ہے ۔ بہبودِ عامہ ایسا فعل ہے جس سے کوئی مالی یا مادی فائدہ وابستہ نہ ہو اور نہ بڑائی یا مشہوری یا سند یا منظورِ نظر بننے کی خواہش ۔ بہبودِ عامہ ہر کوئی کر سکتا ہے خواہ وہ مالدار ہو یا نہ ہو ۔ پڑھا لکھا ہو یا نہ ہو ۔ تجربہ کار ہو یا ناتجربہ کار ۔ بوڑھا ہو یا جوان ۔ مذکر ہو یا مؤنث ۔ صرف عقل اور ارادہ شرط ہے ۔

آجکل پاکستان میں ہزاروں این جی اوز ہیں جو اپنا نصب العین تو بہبودِ عامہ بتاتی ہیں مگر اصل مقاصد کچھ اور ہیں ۔ بلا شبہ ایسے ادارے ہیں جو بہبودِ عامہ کا کام کر رہے ہیں لیکن ان کا دائرۂِ اختیار محدود کر دیا گیا ہے ۔ اسلام آباد میں چار درجن این جی اوز ہیں [ان میں وہ شامل نہیں جو خاموشی سے بہبودِ عامہ کا کام کر رہے ہیں اور اپنے آپ کو این جی او نہیں کہتے] ۔ میں نے پچھلے دس سال میں اسلام آباد کی اکثر این جی اوز کے دفاتر میں جا کر ان کے اغراض و مقاصد اور کام کے متعلق معلومات حاصل کیں اور صرف معدودے چند کو فعال پایا باقی سب صرف لفاظی نکلی ۔

ہمارے ملک میں عام آدمی کی اکثریت کو معلوم نہیں کہ فرائض اور ذمہ داریوں میں کیا فرق ہوتا ہے ۔ نہ کسی کو معلوم ہے کہ اس کے فرائض کیا ہیں ۔ نہ پتہ ہے کہ ذمہ داریاں کیا ہیں ۔لیکن حقوق کا بہت شور شرابہ ہے ۔ جب کوئی اپنے حق کی بات کرتا ہے تو دراصل وہ دوسروں کی ذمہ داری کی بات کر رہا ہوتا ہے کیونکہ ہر حق کے ساتھ ذمہ داری منسلک ہوتی ہے ۔ ہماری چھوٹی چھوٹی ذمہ داریاں ہیں جو ہم پوری نہیں کرتے نتیجہ یہ کہ قوم انحطاط کا شکار ہے ۔ کیا ہر شخص کو پہلے اپنی ذمہ داریوں کو نہیں پورا کرنا چاہیئے تاکہ وہ دوسروں کیلئے مثال بنے اور پھر دوسرے بھی اپنی ذمہ داریاں پوری کرنے کا سوچیں جو باقی لوگوں کے حقوق ملنے کا باعث بنیں ؟

اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان

بیٹھے بیٹھے یہ الفاظ میرے دماغ میں گھومنے لگے ۔ نامعلوم ان کو اشعار کہا جا سکتا ہے یا نہیں ۔

اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان
تیرا  سجّن  یورپ  نہ  امریکہ
تیرا  ساتھی چین  نہ  جاپان
اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان

نہ کر بھروسہ غیروں کی مدد پر
اپنی  زمیں ا ور  اپنوں پر نظر کر
اور  رکھ اپنی طاقت  پر ایمان
اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان

دساور کا مال  جو  کھائے
ہڈ حرام   وہ  ہوتا  جائے
بھر اپنے کھیتوں سے کھلیان
اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان

دہشتگرد کہہ کر نہ گِرا
اپنوں کی لاشیں  جا بجا
اپنے خون کی کر  پہچان
اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان

کرے جو  تو  محنت  مزدوری
دال روٹی بن جائے حلوہ پوری
حق حلال کی اب  تُو  ٹھان
اُٹھ پاکستانی اپنا آپ پہچان

ہم پاکستانی ۔ ڈھنڈورہ اور حقیقت

سیٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ایک نجی رفاہی ادارہ ہے جو تھیلاسیمیا میں مبتلا بچوں کے علاج کا بندوبست کرتا ہے اور پورے اخراجات خود برداشت کرتا ہے ۔ یہ ادارہ کئی دہائیوں سے یہ خدمت سرانجام دے رہا ہے ۔ اللہ کے بندے اس ادارہ کے ساتھ تعاون کرتے ہیں ۔ اس ادارہ کا انتظام اور تعاون کرنے والے سب ایشیائی مسلمان ہیں اور اکثریت پاکستانیوں کی ہے ۔

پاکستان میں اس قسم کے اور بھی کئی ادارے ہیں جنہیں پاکستانی مسلمان ہی چلا رہے ہیں ۔ یہ ادارے پاکستان کی حکومت یا یورپی یا امریکی حکومت یا اداروں کی مدد کے بغیر چل رہے ہیں اور مختلف قسم کے رفاہی کام محنت اور خلوص کے ساتھ انجام دے رہے ہیں [یہ ادارے این جی او نہیں کہلواتے] ۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ جیسا ہماری قوم کو مسلمان ہونے کی حیثیت میں ہونا چاہیئے اس کا پاسکو بھی نہیں لیکن اس کا یہ مطلب ہرگز نہیں کہ پاکستان میں بسنے والے سب خودغرض ہیں ۔

سیٹیلائیٹ ٹاؤن والے ادارےکو ماہانہ 40 بوتل خون درکار ہوتا ہے چنانچہ وہ خون جمع کرنے لئے کیمپ لگاتے ہیں ۔ ان کا تجربہ ہے کہ ترقی یافتہ طبقہ کی نسبت غیر ترقی یافتہ لوگ رفاہِ عامہ کے کاموں میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں ۔ اس کی تازہ ترین مثال انہوں نے خون جمع کرنے کے اپنے حالیہ کیموں کی دی ۔ ایک عالی شان یونیورسٹی میں کیمپ لگایا گیا جہاں طلباء اور طالبات کی تعداد کئی ہزار تھی اور بمشکل 22 بوتل خون حاصل ہوا ۔ جامعہ فریدیہ میں کیمپ لگایا تو 87 بوتل خون ملنے پر روکنا پڑا کیونکہ وہ صرف 90 بوتلیں لے کر گئے تھے جن میں سے تین ضائع ہو گئی تھیں ۔ جامعہ فریدیہ میں طلباء کی تعداد ایک ہزار سے کم تھی ۔ کیا کہا جائے اُن لوگوں کو جو مدرسوں کے طلباء کو جاہل ۔ انتہاء پسند ۔ دہشتگرد کہتے ہیں ؟

کچھ پاکستانی نہ جانے کن اثرات کے تحت مسلمانوں اور پاکستانیوں میں کیڑے نکالتے رہتے ہیں ۔ کیا ان کیلئے بہتر نہیں کہ دوسروں میں کیڑے نکالنے کی بجائے وہ اپنی اصلاح کریں ؟ آخر ایسے خواتین و حضرات یہ کیوں بھول جاتے ہیں وہ خود بھی پاکستانی ہیں ۔

پاکستانی بہن بھائیوں سے درخواست ہے کہ حقائق کی چھان بین کئے بغیر وہ اپنی قوم اور ملک کو بدنام کرنے سے پرہیز کیا کریں ۔

غیرقانونی تجاوزات

تجاوزات تو ہوتے ہی غیر قانونی ہیں لیکن حال ہی میں ہماری حکومت نے بات زوردار بنانے کیلئے ساتھ غیرقانونی لکھنا ضروری سمجھا ۔ “میرا پاکستان” پر اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ ڈاکٹر خالد مسعود کا بیان کہ “قابض جگہوں پر مساجد کی تعمیر غیر قانونی ہے” پڑھا تو کچھ حقائق پر روشنی ڈالنا ضروری سمجھا ۔ اسلامی نظریاتی کونسل کے سربراہ حاکم وقت اپنی سہولت کے مطابق مقرر کرتے آئے ہیں ۔کسی زمانہ میں ایک سربراہ کا مؤقف تھا کہ روزانہ صرف تین نمازیں فرض ہیں ۔

ہمارے ملک میں تجاوزات اور ان کے سدِباب کی کہانی بہت پرانی ہے ۔ ہم 1949 سے 1964 عیسوی تک جھنگی محلہ راولپنڈی میں رہتے تھے ۔ ہمارے مکان کا فرش گلی سے دو فٹ اُونچا تھا اسلئے دروازے کے سامنے ایک چھوٹا سا پُشتہ ایک سیڑھی کے ساتھ بنا ہوا تھا ۔ ایک دن میں کالج سے گھر پہنچا تو دیکھا کہ سیڑھی اور پُشتہ غائب ہے تو بڑی مشکل سے گھر میں داخل ہوا ۔ پوچھا تو معلوم ہوا کہ میونسپل کمیٹی کے آدمی گرا گئے ہیں کہ یہ تجاوز تھا ۔ میں نے کہا کہ ہماری ہی گلی میں ایک مکان کا پُشتہ اس سے بڑا ہے وہ تو نہیں گرایا تو بتایا گیا کہ وہاں اس سکول کے ہیڈ ماسٹر صاحب رہتے ہیں جہاں گرانے والوں میں سے کسی کا بیٹا پڑھتا ہے ۔

کیپیٹل ڈویلوپمنٹ اتھارٹی [سی ڈی اے] نے اس سال 7 مساجد مع تلاوتِ قرآن سکھانے کے مدرسوں کے گرا دیں ۔ مزید 80 مساجد اور مدارس کو گرانے کے نوٹس دے دئیے ۔ یہ وہ مساجد یا مدارس ہیں جو اُن بڑی سڑکوں کے قریب ہیں جہاں سے کسی وی آئی پی کا گذر ہو سکتا ہے ۔ ان میں ایک مسجد مری روڈ کے قریب وڈیروں کے فارم ہاؤسز کے سامنے ایک صدی پرانی تھی اور ایک مسجد شاہراہ اسلام آباد پر خود سی ڈی اے نے 25 سال قبل تعمیر کی تھی ۔ جو مساجد اور مدارس گرائے گئے یا جنہیں گرانے کے نوٹس جاری کئے گئے ان میں اکثریت ایسی مساجد اور مدارس کی ہے جو حکومتِ وقت کے مہیا کردہ فنڈز سے تعمیر ہوئے تھے ۔

ہمارے ملک میں بااثر اور ناجائز طاقت کے مالک جہاں بھی ہوں سرکاری زمین اور دوسرے لوگوں کی ملکیت پر ناجائز قبضے کرتے رہتے ہیں اور اُن کے خلاف کسی حکومتی ادارے نے کبھی آواز نہیں اُٹھائی بلکہ حکومتی اہلکار ان کے پُشت پناہ ہوتے ہیں ۔ اسلام آباد میں بہت سے ایسے غیرقانونی تجاوزات میرے علم ہیں ۔کئی کے خلاف محلے والوں نے جن میں بھی شامل تھا آواز اُٹھائی ۔ اخباروں کو اور حکومتی اہلکاروں کو لکھا مگر بے سود ۔

ہماری رہائش گاہ سے 500 میٹر کے فاصلہ پر ایک مسجد مشرق کی طرف اور ایک جنوب مغرب کی طرف سرکاری زمین پر ناجائز اور غیرقانونی قبضہ کر کے بغیر نقشہ پاس کرائے بنائی گئیں تھیں مگر نہ گرائی گئیں نہ گرانے کا نوٹس دیا گیا ۔ جو مسجد جنوب مغرب میں ہے وہ ایسی جگہ پر قبضہ کر کے بنائی گئی جس کی رفاہِ عامہ کیلئے عمدہ منصوبہ بندی اسلام آباد کے ماسٹر پلان میں شامل تھی ۔

سٹریٹ نمبر 30 سیکٹر ایف 8/1 اسلام آباد کو ایک برساتی نالہ کراس کرتا ہے ۔ سڑک کے جنوبی جانب اس نالے کے مغرب کی طرف اسلام آباد کالج فار گرلز ہے اور مشرقی جانب کوٹھی نمبر 15 ہے جس کی الاٹ شدہ زمین 2000 مربع گز ہے ۔ اس کوٹھی کے مالک نے تقریباً 25 فٹ چوڑی اور 180 فٹ لمبی [500 مربع گز] سرکاری زمین اپنی کوٹھی میں شامل کر کے اپنے پلاٹ کا سائیز 2500 مربع گز بنا لیا ہوا ہے ۔ اس علاقہ میں 500 مربع گز  زمین کی قیمت ڈیڑھ کروڑ روپے سے زائد ہے ۔

سٹریٹ نمبر 51 سیکٹر ایف 7/۱ اسلام آباد پر حکومتی پارٹی کے رکن قومی اسمبلی کا گھر ہے ۔ اس نے سی ڈی اے سے اجازت لی کہ وہ اپنے گھر سے ملحقہ زمین میں پارک بنائے گا [مطلب تھا پبلک پارک] لیکن اس نے متعلقہ زمین کے گرد اُونچی دیوار بنا کر کئی ایکڑ  زمین اپنی کوٹھی میں شامل کر لی ہے ۔ ایک ایکڑ 4840 مربع گز ہوتا ہے ۔ اس علاقہ میں ایک ایکڑ  زمین کی قیمت 15 کروڑ  روپے سے زائد ہے ۔

راولپنڈی سے شاہراہ شیرشاہ سوری پر پشاور کی طرف روانہ ہوں تو آرمی کالج آف الیکٹریکل اینڈ مکینیکل انجنیئرنگ کے بعد سڑک کے بائیں ہاتھ اُونچائی پر ایک گنبد بنا ہوا ہے جو سڑک کے اندر گھُسا ہوا ہے ۔ یہ بظاہر مقبرہ ہے ۔ یہ 1964 اور 1968 عیسوی کے درمیان مکمل کیا گیا اورکسی قبضہ گروپ کی ملکیت ہے جو قبر پرستوں کےچڑھاوے وصول کرتا ہے ۔ یہاں کوئی آدمی دفن نہیں ہے اور اس جگہ پر اس وقت ناجائز قبضہ کیا گیا جب شاہراہ شیر شاہ سوری کو دوہرا کرنے کا اعلان ہوا تھا ۔

تصویر کا دوسرا رُخ یہ ہے کہ راولپنڈی میں ایک قبضہ گروپ ڈویلوپر کے حقیقی تجاوزات کے خلاف ایکشن لینے پر حکومتِ پنجاب نے دو سکریٹریوں [سیکریٹری ہاؤسنگ اور سیکریٹری انفارمیشن] کو حال ہی میں ملازمت سے علیحدہ کر دیا ہے ۔ اس کی تفصیل یہاں کلک کر کے پڑھیئے ۔