Monthly Archives: March 2007

مجھے ناپسند ہے

ایک شخص نے مجھے مجبور کیا ہے کہ میں اُن 10 عوامل یا اشیاء کا ذکر کروں جو مجھے نا پسند ہیں ۔
1 ۔ کسی کو اس نام سے پُکارنا جو اُس شخص نے اپنا نام رکھا ہوا ہے جس نے مجھے یہ لکھنے پر مجبور کیا ہے
2 ۔ کسی کو توُ کہہ کر مخاطب کرنا
3 ۔ کسی کو بغیر مصدقہ ثبوت کے بُرا کہنا
4 ۔ کسی کو حقیر جاننا
5 ۔ کسی کو وضاحت کا موقع دیئے بغیر قصوروار ٹھیرانا
6 ۔ کسی عبادت گاہ یا مقدس کتاب کی بے حُرمتی کرنا
7 ۔ عورت یا لڑکی پر آواز کسنا
8 ۔ کسی غریب یا بے کس کا مذاق اُڑانا
9 ۔ کھانا کھانا جبکہ قریب بھوکا شخص ہو اور اسے پہلے کھانا نہ دیا جائے
10 ۔ پیٹھ پیچھے کسی کی بُرائی کرنا جسے غیبت کہتے ہیں

میری درخواست ہے مندرجہ ذیل خاتون و حضرات سے کہ وہ اپنی نفرت آمیز عوامل و اشیاء کے متعلق اپنی رائے کا اظہار فرمائیں ۔

 منیر احمد طاہر صاحب

اسماء صاحبہ

اظہرالحق صاحب

باذوق صاحب

شراب نوشی ۔ اسلام اور ہماری حکومت

آج کل قومی اسمبلی ۔ اخبارات اور ٹی وی سٹیشنوں پر شراب نوشی زیرِ بحث ہے اور ثابت کرنے کی کوشش کی جا رہی ہے شراب نوشی کو اللہ نے حرام قرار نہیں دیا ۔ عجب استدال اور مافوق الفطرت دلائل دیئے جا رہے ہیں ۔ اس سے قبل بدکاری کیلئے اللہ کی مقرر کردہ حدود کے خلاف تحفظِ حقوق نسواں کے نام سے قانون بنا کر بدکاروں کو کھُلی چھٹی دی جا چُکی ہے ۔ یوں محسوس ہوتا ہے کہ ہمارے حکمران ایک سوچے سمجھے منصوبہ کے تحت ہماری قوم کو بے دین بنانے میں کوشاں ہیں ۔

اسلام سے قبل شراب ایک عام مشروب تھا ۔ لوگ اس کے عادی تھے پھر بھی ایسے لوگ موجود تھے جو شراب پینے کو بُرا سمجھتے ہوئے شراب نوشی نہیں کرتے تھے ۔ مدینہ منوّرہ کو ہجرت کر جانے کے بعد عمر ابن الخطاب رضی اللہ عنہ کی قیادت میں شراب نوشی نہ کرنے والوں کا ایک وفد شراب نوشی کی ممانعت کی سفارش کرنے رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم کی خدمت میں حاضر ہوا ۔ اُس کے کچھ عرصہ بعد یہ آیت اُتری ۔

سُورت 2 ۔ الْبَقَرَہ ۔ آیت 219 ۔ يَسْأَلُونَكَ عَنِ الْخَمْرِ وَالْمَيْسِرِ قُلْ فِيھِمَا إِثْمٌ كَبِيرٌ وَمَنَافِعُ لِلنَّاسِ وَإِثْمُھُمَآ أَكْبَرُ مِن نَّفْعِھِمَا ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ كَذَلِكَ يُبيِّنُ اللّہُ لَكُمُ الْآيَاتِ لَعَلَّكُمْ تَتَفَكَّرُونَ

ترجمہ ۔ آپ سے شراب اور جوئے کی نسبت سوال کرتے ہیں، فرما دیں: ان دونوں میں بڑا گناہ ہے اور لوگوں کے لئے کچھ (دنیاوی) فائدے بھی ہیں مگر ان دونوں کا گناہ ان کے نفع سے بڑھ کر ہے ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اسی طرح اﷲ تمہارے لئے (اپنے) احکام کھول کر بیان فرماتا ہے تاکہ تم غور و فکر کرو

مسلمانوں میں سے کئی نے بڑا گناہ قرار دیئے جانے کے بعد شراب نوشی ترک کر دی ۔ چونکہ کھُلے الفاظ میں شراب نوشی کی ممانعت نہ کی گئی تھی اسلئے کچھ مسلمان شراب نوشی کرتے رہے اور نشہ میں مسجد جانے کے واقعات ہوئے ۔ بعد میں غالباً 4 ہجری کے شروع میں مندرجہ ذیل آیت اُتری ۔

سُورت 4 النِّسَآء ۔ آیت 43 ۔ يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ لاَ تَقْرَبُواْ الصَّلاَةَ وَأَنتُمْ سُكَارَى حَتَّی تَعْلَمُواْ مَا تَقُولُون

ترجمہ ۔ اے ایمان والو! تم نشہ کی حالت میں نماز کے قریب مت جاؤ یہاں تک کہ تم وہ بات سمجھنے لگو جو کہتے ہو

مندرجہ بالا حُکم کے نتیجہ میں زیادہ تر مسلمانوں نے شراب نوشی ترک کر دی لیکن کچھ اس طرح اوقات بدل کر شراب نوشی کرتے رہے تا کہ نماز کے وقت تک نشہ ختم ہو جائے ۔ کچھ عرصہ بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے ایک خطبہ میں لوگوں کو متنبہ فرمایا کہ اللہ تعالٰی کو شراب سخت ناپسند ہے ۔ بعید نہیں کہ اس کی قطعی حُرمت کا حُکم آجائےلہٰذا جن جن لوگوں کے پاس شراب موجود ہو وہ اسے فروخت کر دیں ۔ اس کے کچھ مدت بعد مندرجہ ذیل آیت نازل ہوئی

يَا أَيُّھَا الَّذِينَ آمَنُواْ إِنَّمَا الْخَمْرُ وَالْمَيْسِرُ وَالْأَنصَابُ وَالْأَزْلاَمُ رِجْسٌ مِّنْ عَمَلِ الشَّيْطَانِ فَاجْتَنِبُوہُ لَعَلَّكُمْ تُفْلِحُونَ

ترجمہ ۔ اے ایمان والو! بیشک شراب اور جُوا اور [عبادت کے لئے] نصب کئے گئے بُت اور [قسمت معلوم کرنے کے لئے] فال کے تیر [سب] ناپاک شیطانی کام ہیں۔ سو تم ان سے [کلیتاً] پرہیز کرو تاکہ تم فلاح پا جاؤ

اس کے فوراً بعد رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے اعلان کرایا کہ اب جن کے پاس شراب ہے وہ نہ اسے پی سکتے ہیں نہ بیچ سکتے ہیں بلکہ وہ اسے ضائع کر دیں چنانچہ اُسی وقت مدینہ کی گلیوں میں شراب بہا دی گئی ۔ بعض لوگوں نے پوچھا کہ ہم یہودیوں کو تحفہ کیوں نہ دے دیں ؟ آپ نے فرمایا جس نے یہ چیز حرام کی ہے اس نے تحفہ دینے سے بھی منع کر دیا ہے ۔کچھ نے پوچھا کہ ہم شراب کو سرکہ میں کیوں نہ تبدیل کرلیں ؟ آپ نے اس سے بھی منع فرمایا اور حُکم دیا کہ اسے بہا دو ۔ ایک شخص نے پوچھا کہ کیا دوا کے طور پر استعمال کی اجازت ہے ؟ آپ نے فرمایا کہ نہیں وہ دوا نہیں بلکہ بیماری ہے ۔

ابن عمر رضی اللہ عنہ کی روائت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم نے فرمایا ” اللہ تعالٰی نے لعنت فرمائی ہے شراب پر اور اسکے پینے والے پر اور پلانے والے پر اور بیچنے والے پر اور خریدنے والے پر اور کشید کرنے والے پر اور کشید کرانے والے پر اور ڈھو کر لیجانے والے پر اور اس شخص پر جس کیلئے وہ ڈھو کر لیجائی گئی ہو” ۔

رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلم کے زمانہ میں جو شراب پینے والا گرفتار ہو کر آتا اسے جوتے ۔ لات ۔ مُکے ۔ بل دی ہوئی چادر کے سونٹے ۔ یا کھجور کے سونٹے مارے جاتے تھے ۔ زیادہ سے زیادہ 40 ضربیں لگائی جاتیں ۔

انٹر نیٹ پر تلوار چل گئی

پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی نے قابلِ اعتراض مواد شائع کرنے کے بہانے سے آئی ٹی آئی کو کچھ ویب سائٹس بلاک کرنے کا حکم دیا جس کے نتیجہ میں اب تک کی معلومات کے مطابق مندرجہ ذیل ویب سائٹس اور ان پر بنے ہوئے بلاگز یا تو کھُلتے نہیں یا بہت سُست رفتار سے کھُلتے ہیں یا مکمل طور پر نہیں کھُلتے ۔

Yahoo
Microsoft
Download.com
Symantec
PC World
MTV
Best Buy
Logitech

لگتا ہے ہماری حکومت ہماری قوم کو تیزی سے جہالت کی طرف دھکیلنا چاہتی ہے

مسلمان ؟

سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ ۔ صدق اللہ العظیم ۔

[تیری ذات پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اسی قدر جو تو نے ہمیں سکھایا ہے ۔ بیشک تو ہی جاننے والا حکمت والا ہے]

میں عالمِ دین نہیں اگر کچھ ہوں تو انجنیئر اور سائنسدان ہوں ۔ ساری عمر میں میں نے جو کچھ پڑھا ۔ دین کا جو علم میں نے حاصل کیا ہے اس کی بنیاد پر اپنا نظریا پیش کر رہا ہوں ۔ ہر وہ شخص جو شہادہ پڑھ لے وہ مسلمان کہلاتا ہے لیکن بات یہاں ختم نہیں ہو جاتی ۔ جس طرح ایک شخص ایم بی بی ایس یا ایم ڈی کی سند حاصل کر لے اور جو کچھ اُس نے پڑھا ہے اس کے مطابق عمل نہ کرے ۔ یا تو اس کی سند پر شک کیا جائے گا یا اسے نالائق کہا جائے گا ۔ اسی طرح شہادہ پڑھ لینے کے بعد شہادہ کا مقصد پورا کیا جائے تب ہی اسے مسلمان کہا جائے گا ۔

اول ۔ ایسا شخص جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے یعنی اللہ کی پوری صفات پر یقین رکھتا ہے ۔ اللہ کے تمام احکام کی بجا آوری کی پوری کوشش کرتا ہے اور احکام کی بجا آوری میں اُسے اپنے مال و جان کے چلے جانے کی بھی پرواہ نہیں ۔ یہ شخص بہترین مسلمان ہے ۔

دوسرا ۔ ایسا شخص جو اللہ پر ایمان رکھتا ہے یعنی اللہ کی پوری صفات پر یقین رکھتا ہے موٹے موٹے ارکان کی پابندی کرتا ہے لیکن ہر بات میں اللہ کے حکم کے مطابق نہیں چل پاتا ۔ اس کی ایک زندہ مثال جو میں نے دیکھی یہ ہے کہ کوئی آٹھ سال قبل سیٹیلائیٹ ٹاؤن راولپنڈی میں ایک آدمی کا باقی سارا خاندان کہیں گیا ہوا تھا اور وہ گھر پر اکیلا تھا ۔ وہ بہت پرہیزگار نہ تھا ۔ آدھی رات کو ڈاکو اس کے گھر میں گھس آئے اور اسے جگا کر مال متاع کی چابیاں حوالے کرنے کو کہا ۔ اس نے کوئی جواب نہ دیا ۔ ڈاکوؤں کا سرغنہ اس پر پستول تان کر کھڑا ہو گیا اور باقی ڈاکو گھر سے قیمتی اشیاء اکٹھی کرنے لگے ۔ ڈاکو وقفہ وقفہ سے اس کے سر پر پستول کی نالی مار کر کہتا چابیاں کہاں ہیں ؟ مال کہاں ہے ؟ مگر وہ کچھ نہ بولا ۔ آخر ڈاکو نے کہا اب نہیں بتاؤ گے تو میں تمہیں جان سے مار دونگا ۔ وہ بولا جان اللہ کے ہاتھ میں ہے اگر یہ وقت میری موت کا ہے تو چابیاں لے کر بھی تم مجھے مار دو گے اور اگر میں نے زندہ رہنا ہے تو تم مجھے نہیں مار سکتے ۔ اتنی دیر میں باقی ڈاکو سامان اکٹھا کر کے آ گئے ۔ سرغنہ نے انہیں سامان وہیں چھوڑنے کا اشارہ کیا اور ڈاکو بغیر کچھ لئے چلے گئے ۔ بس کئی دن وہ سر کی ٹکور کرتا رہا ۔ اس کو کہتے ہیں اللہ پر یقین اور اس کا تعلق براہِ راست دل و دماغ کے ساتھ ہے ۔

تیسرا ۔ ایسا شخص جو اسلام کے ارکان یعنی نماز ۔ روزہ ۔ زکات ۔ حج وغیرہ پورے کرتا ہے لیکن اللہ پر یقین اتنا کامل نہیں کہ اس کے سہارے سمندر یا آگ میں کود پڑے ۔ مگر اللہ اس کے رسولوں اور اسلام کے خلاف بات برداشت نہیں کرتا ۔

چوتھا ۔ ایسا شخص جو اسلام کے ارکان کی بھی پابندی نہیں کرتا لیکن دل و دماغ اسکے یہی کہتے ہیں کہ اسلام کے تمام اصول صحیح ہیں اور اسے پابندی کرنا چاہئیے اور وہ اللہ اس کے رسولوں اور اسلام کے خلاف بات برداشت نہیں کرتا ۔ یہ قسم ایمان کی انتہائی کمزوری سے متعلق ہے ۔

ایسا شخص جو اللہ یا اس کے رسول پر یقین نہیں رکھتا ۔ اسے تو سب جانتے ہیں کہ غیر مسلم ہے ۔

ایسا شخص جو اپنے آپ کو مسلمان کہتا ہو ۔ کلمہ پڑھتا ہو اور دوسرے ارکان بھی بظاہر ادا کرتا ہو لیکن اللہ یا اس کے رسول یا دین اسلام کے احکام کی مخالفت کرتا ہو یا ان کو بُرا کہتا ہو یا ان کا مذاق اُڑاتا ہو یا اگر کوئی ان میں سے کسی کو بُرا کہے یا ان میں سے کسی کا مذاق اُڑائے اور وہ طاقت رکھتے ہوئے اس کا سدِباب نہ کرے اور اگر طاقت نہ رکھتا ہو تو اسے دل سے بُرا نہ جانے اور ایسے لوگوں کو بُرا نہ جانے یا ایسے لوگوں سے قطع تعلق نہ کرے تو کیا اُسے مسلمان کہا جائے گا ؟