عمومی غلطیاں

ہمارا ملک دین اسلام کے نام پر حاصل کیا گیا لیکن آزادی کے چھ سال بعد ہی ذہنی طور پر انگریز کے غلام ۔ شرابی اور مفاد پرست اس کے حکمران بننے میں کامیاب ہو گئے ۔ تعلیمی نصاب میں دینیات یا اسلامیات صرف خانہ پُری کیلئے شامل کیا گیا ۔ دین کی تعلیم کیلئے مناسب علم رکھنے والوں کو استاذ نہ رکھا گیا ۔ دینیات کے استاذ کی تنخواہ اتنی کم رکھی گئی کہ اگر دین کا علم رکھنے والا اُستاذ بننا بھی چاہے تو نہ بن سکے ۔

آج صورتِ حال یہ ہے کہ ہمارے پاکستانی مسلمان بہن بھائیوں میں سے اکثریت کو دین کا صحیح علم نہیں ۔ لگ بھگ ایک تہائی ایسے ہیں جن کو نماز نہیں آتی ۔ مگر میں آج صرف اُن پڑھے لکھے بہن بھائیوں کی بات کروں گا جو نماز پڑھتے ہیں ۔ نماز پڑھتے ہوئے چھوٹی چھوٹی غلطیاں کی جاتی ہیں جُن سے نماز ناقص ہو جاتی ہے ۔

1 ۔ ابو داؤد میں رقم حدیث کے مطابق سورت فاتحہ کی تلاوت کے دوران ہر آیت کے بعد وقفہ ضروری ہے ۔ اسے ایک ہی سانس میں پڑھنا غلط ہے ۔ نماز تو ساری ہی تسلّی اور تحمل کے ساتھ پڑھنا چاہئیے لیکن سورت فاتحہ کی ہر آیت کے بعد وقفہ دینا ضروری ہے ۔

2 ۔ صحیح مُسلم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے رکوع اور سجدہ میں کوہنیاں جسم کے ساتھ لگانے سے منع فرمایا ہے ۔

3 ۔ حدیث مسلم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے قیام کے دوران سامنے دیکھنے سے منع فرمایا ہے ۔ نظریں اُس جگہہ پر مرکوز ہونا چاہئیں جہاں سجدہ کے دوران ماتھا رکھا جاتا ہے ۔

4 ۔ سجدے میں صرف تھوڑا سا ماتھا  زمین پر رکھنا غلط ہے ۔ صحیح مسلم کے مطابق رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا مجھے حُکم دیا گیا ہے کہ میں سات ہڈیوں پر سجدہ کروں ۔ ماتھا مع ناک ۔ دونوں ہاتھ [ہتھلیاں] ۔ دونوں گھُٹنے اور دونوں پاؤں ۔

5 ۔ تسلّی کے ساتھ رکوع اور سجود نہ کرنا غلط ہے ۔ اس کے متعلق کئی احادیث ہیں ۔ ایک حدیث تقریباً سب مجموعوں میں ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ و آلہ و سلّم نے فرمایا ۔ جس نے رکوع و سجود مکمل نہ کئے اُس کی نماز باطل ہے ۔ رکوع میں آرام سے اس طرح جائیے کہ پُشت زمین کے متوازی ہو جائے پھر رُک رُک کر تسبیح پڑھنے کے بعد آرام سے سیدھے یعنی عموداً کھڑے ہونا ضروری ہے ۔ اسی طرح سجدہ میں کیجئے ۔ ایک سجدے کے بعد سیدھا یعنی عموداً بیٹھے بغیر دوسرا سجدہ کرنا غلط ہے ۔

سب سے لمبی نماز عشاء کی ہے جو تسلّی اور تحمل سے پڑھی جائے تو 10 منٹ سے زیادہ نہیں لگتے ۔ ہم لوگ فضولیات میں گھینٹے ضائع کر دیتے ہیں لیکن نماز اسطرح پڑھتے ہیں کہ کوئی ہمیں قتل کرنے کیلئے آ رہا ہے اور ہم نے جان بچانے کیلئے بھاگنا ہے ۔ شاید اسی کئے ہماری نمازیں ہمیں برائی سے نہیں بچاتیں ۔ اللہ سبحانہُ و تعالٰی کا یہ فرمان غلط نہیں ہو سکتا نماز برائی سے روکتی ہے ۔

6 ۔ تسبیح بائیں ہاتھ سے نہیں کرنا چاہئیے صرف داہنے ہاتھ کی انگلیوں پر یا داہنے ہاتھ سے موتی چلانا چاہئیں ۔

7 ۔ کوئی نماز پڑھ رہا ہو تو اس کے آگے سے نہیں گذرنا چاہئیے ۔ اس سے بچنے کیلئے ایک تو جسے جانا ہو اُسے صبر سے کام لینا چاہئیے دوسرے سنت یا نفل پڑھنے والے کو چاہئیے کہ با جماعت نماز ختم ہونے کے بعد تھوڑا وقفہ دے کر سنت یا نفل شروع کرے تاکہ جس نے فرض پڑھ کر جانا ہے چلا جائے ۔ اس کے علاوہ بالخصوص جماعت سے پہلے سنت یا نفل پڑھنے والا باہر سے آنے اور جانے کے راستہ کے پیچھے نماز نہ پڑھے ۔

8 ۔ جان بوجھ کر جماعت میں تاخیر سے شامل ہونا نماز کو ناقص کر دیتا ہے ۔ جب فرض نماز کیلئے تکبیر اقامت شروع ہو جائے تو پھر سنت یا نفل نماز شروع نہ کرنا چاہئیے اس خیال سے کہ جلدی پڑھ کے جماعت کے ساتھ شامل ہو جاؤں گا ۔ اگر فرض جماعت کھڑی ہونے میں اتنا کم وقت رہ گیا ہو کہ اس میں سنتیں نہ پڑھی جا سکتی ہوں تو پھر سنتیں نہیں پڑھنا چاہئیں ۔

9 ۔ نماز تراویح میں کئی حضرات 2 تراویح خود علیحدہ پڑھ کر جماعت میں شامل ہو جاتے ہیں اور یہ عمل دہراتے رہتے ہیں حتٰی کہ جب امام صاحب نے 10 تراویح پڑھی ہوتی ہیں تو وہ 20 پڑھ لیتے ہیں ۔ یہ غلط طریقہ ہے ۔ علماء کے مطابق ایسی تراویح ناقص ہے ۔ کچھ لوگ دیر سے آتے ہیں اور پھر بیچ میں اُوپر والا عمل دہرا کر تراویح کی تعداد پوری کرتے ہیں ۔ یہ بھی غلط ہے ۔ اگر کسی مجبوری کے تحت دیر ہو جائے تو جتنی تراویح امام کے ساتھ ہوں پڑھ لیجئے ۔ دل میں کمی کی کسک ہو تو وتر پڑھ کر گھر جائیں اور سو جائیں پھر سحری کا وقت شروع ہونے سے پہلے پہلے 8 یا اس سے زیادہ جتنی چاہیں رکعت پڑھ لیجئے ۔

10 ۔ چند ماہ قبل ایک اچھے خاصے تعلیم یافتہ مسلمان نے بتایا کہ وہ جمعہ کے 2  واجب کے علاوہ ظہر کی پوری نماز پڑھتے ہیں یعنی جمعہ کے وقت وہ 4 سنت ۔ 2 واجب ۔ 4 فرض ۔ 2 سنت اور 2 نفل پڑھتے ہیں ۔ یہ غلط ہے ۔ جمعہ کے وقت 4 سنت ۔ 2 واجب ۔ 2 یا 4 یا 6 سنت اور دو نفل پڑھے جاتے ہیں ۔

ہم لوگ جتنے ناول پڑھتے ہیں اور جتنی فلمیں یا ڈرامے دیکھتے ہیں اگر ان میں سے ایک ناول یا فلم یا ڈرامہ چھوڑ دیں اور اس کی بجائے اپنے دین کا کچھ علم حاصل کر لیں تو ہم مسلمان بن سکتے ہیں ۔
وما علینا الی البلاغ المبین ۔

This entry was posted in دین on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

11 thoughts on “عمومی غلطیاں

  1. ابو حلیمہ

    السلام علیکم،۔
    نقأیط نمبر ۹ اور ۱۰ بہت دلچسپ لگے۔ باقی تمام باتیں کسی نہ کسی شکل میں میرے نظر سے گزری ہیں پر یہ دونوں طریقے کرتے میں نے آج تک کسی کو نہیں دیکھا تھا۔ بس اللہ ہم سب کو سمجھ دے اور عقل سلیم عطا فرمأے۔۔۔آمین۔

  2. Abdullah

    is kay ilawa mard or orat kay namaz kay tareeqay main koi ferq naheen hay or tasbeehat bahtar hay kay unglion per gini jaain bholnay ka khadsha ho to dano per bhi perh saktay hain,
    meray hisab say Isha ki namaz perhnay main 10 minute sirf usi sorat main lagay gay jab aap sirf 4 ferz or 2 sunat ada kerain,
    sab say taweel namaz zohar ki hoti hay jis main 4 sunat 4 ferz or 2 sunat perhay jatay hain,

  3. Roghani

    محترم اجمل صاحب
    میں آپ سے متفق ہوں کہ ہمیں دین کا علم حاصل کرنے کے لئے کچھ وقت صرف کرنا چاہیئے ۔ میں صرف دو باتوں کی طرف آپ کی توجہ دلانا چاہتا ہوں ۔
    1۔ نکتہ نمبر 7 میں ، میں یہ اضافہ کرنا چاہوں گا کہ صرف باجماعت فرض مسجد میں پڑھنی چاہیئے جبکہ سنت اور نوافل ، چاہے باجماعت نماز سے قبل ہوں یا بعد میں ، گھر میں اطمینان سے پڑھنی جائیں اور یہی نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کا معمول رہا ہے ۔ اس طرح ان مسائل سے بچا جاسکتا ہے جن کی طرف آپ نے اشارہ کیا ہے ۔

    2۔ آپ نے نکتہ نمبر 9 کے تحت تراویح کی بات کی ہے ۔ ہمارا ہاں یہ غط فہمی ہے کہ تراویح باجماعت پڑھنی لازمی ہیں اور ان کی تعداد لازما بیس ہے ۔ یہ ایک اختلافی مسئلہ ہے ۔ تاہم اس سلسلے میں بہترین عمل یہی ہے کہ تراویح گھر میں اور سحری کے وقت پڑھی جائیں کیونکہ تراویح دراصل تہجد کی نماز ہے جسے عام مسلمانوں کی سہولت کے لئے اس وقت پڑھنے کی اجازت دی گئی ہے تاہم بہتر یہی ہے کہ یہ نماز اکیلے میں ، انتہائی سکون اور اطمینان کے ساتھ ، سحری کے وقت پڑھ لی جائے ۔

    دعا ہے کہ اللہ ہمیں دین کا صحیح فہم اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔

  4. اجمل

    روغانی صاحب
    میں اپ کا مشکور ہوں کہ آپ کے تبصرہ نے مجھے اپنی معلومات تازہ کرنے کیلئے مسند کتاب الفقہ کا مطالعہ کرنے پر راغب کیا ۔

    آپ کا کہنا درست ہے کہ سنت اور نفل نماز گھر پر یا تحلئے میں پڑھنا افضل ہے لیکن مسجد میں بھی پڑھنا صحیح ہے ۔ ہمارے ملک میں شائد صدیوں سے سنت اور نفل مسجد میں پڑھنے کی روائت پڑھ چکی ہے اسلئے یکسر اس کے خلاف لکھنا میں نے مناسب نہ سجھا تھا ۔

    تراویح کے متعلق عرض ہے کہ مسجد فرض تو نہیں مگر افضل ہے لیکن باجماعت ہونے پر چاروں فقہاء اولٰی یعنی ابو حنیفہ ۔ عبدالمالک اور احمد بن حنبل اس پر متفق ہیں ۔ یہ جماعت مسجد میں یا کسی کے گھر کی جا سکتی ہے مگر ہر مسلمان پر باجماعت فرض نہیں ہے ۔ مزید تفصیل میں جانا طوالت کا سبب بنے گا ۔

    آپ کے استدلال کہ تراویح دراصل تہجد ہے سے میں متفق نہیں ہوں کیونکہ اس کا ثبوت مجھے کہیں سے بھی نہیں ملا بلکہ ان میں واضح فرق پتہ چلتا ہے ۔ تہجد اور تراویح کا فرق اس بات سے بھی واضح ہو جاتا ہے کہ تراویح عشاء سے فجر سے پہلے تک کسی وقت بھی پڑھی جا سکتی ہے جب کہ تہجد وتر پڑھ کر آرام کرنے کے بعد پڑھنا ہوتی ہے ۔ تہجد ہر رات کیلئے ہے جب کہ تراویح صرف ماہِ رمضان میں ہے اور تراویح پڑھنے کے باوجود تہجد پڑھی جاتی ہے ۔ تواریح کی تعداد تو بیش ہے لیکن اختلاف اس پر ہے کہ مسجد میں یا باجماعت کتنی پڑھی جائیں ۔

    ہمارے ملک میں بہت سی روایات ایسی ہیں جو 300 ھ کے بعد معرضِ وجود میں آئیں ۔ میں نے اپنے علم کو مندرجہ بالا فقہاء تک محدود رکھا ہوا ہے ۔ جن کا دور 80ھ تا 241 ھ ہے ۔

  5. روغانی

    محترم اجمل صاحب !

    تراویح کی حقیقت سے متعلق نیچے ایک سوال و جواب اس امید کے ساتھ پیش کررہا ہوں کہ اس سے آپ کا بلاگ پڑھنے والوں کو کچھ معلومات فراہم ہوں گی ۔

    Question asked by Khawar Abbas from Pakistan

    عنوان: نماز تراویح کی حقیقت اور اس کی تاریخ

    سوال:تراویح کیا ہے اور اسلام میں اس کی ابتدا کب ہوئی۔ تفصیل سے واضح کریں۔

    جواب:تراویح وہ نماز ہے جو رمضان کے مہینا میں عشا کی نماز کے بعد باجماعت ادا کی جاتی ہے۔ ہماری تحقیق کی حد تک یہ کوئی الگ نماز نہیں ہے۔ یہ درحقیقت تہجد ہی کی نماز ہے جسے حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانے سے لوگوں نے رمضان کے مہینے میں جماعت کے ساتھ پڑھنا شروع کر دیا ہے۔

    حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے زمانۂ خلافت تک لوگ گھروں اور مسجدوں میں اسے بالعموم اپنے طور پر ہی پڑھتے تھے، یہاں تک کہ حضرت عمر ایک دن مسجد کی طرف آئے تو انھوں نے دیکھا کہ لوگ مختلف ٹکڑیوں میں اس طرح یہ نماز پڑھ رہے ہیں کہ کوئی شخص تنہا تلاوت کر رہا ہے اور کچھ امام کی اقتداء میں ہیں۔ اس نماز میں چونکہ کچھ بلند آواز سے تلاوت کی جاتی ہے، اس وجہ سے مسجد میں عجیب بے نظمی کی کیفیت تھی۔ حضرت عمر رضی اللہ عنہ نے قرآن مجید کے آداب تلاوت کے لحاظ سے اسے پسند نہیں فرمایا۔ چنانچہ آپ نے ابی بن کعب رضی اللہ عنہ کو اس نماز کے لیے لوگوں کا امام مقرر کر دیا، اور خود اس نماز میں شریک ہونے کی بجائے رات کے آخری حصے میں اٹھ کر تنہا نماز پڑھنے ہی کو بہتر قرار دیا۔

    ہمارے نزدیک، اس نماز کو لازما عشا کے ساتھ پڑھنے، اور اس کی جماعت، اور رکعتوں پر اصرار جیسی چیزوں کے لیے دین میں کوئی بنیاد نہیں ہے۔ اکابر علما و صالحین کے لیے مناسب یہی ہے کہ وہ نبی صلی اللہ علیہ وسلم کے اپنے عمل کی پیروی میں اس نماز کی زیادہ سے زیادہ گیارہ رکعتیں پڑھیں اور اس کے لیے تہجد ہی کے وقت کو ترجیح دیں۔ ان کے لیے یہ بھی ضروری ہے کہ وہ عمر رضي اللہ عنہ کی طرح اس نماز کے پڑھنے والوں پر یہ حقیقت بھی واضح کرتے رہیں کہ یہ کوئی الگ نماز نہیں، بلکہ وہی تہجد کی نماز ہے جس کی اصل برکتیں سو کر اٹھنے کے بعد اور تنہا اپنے گھر میں اسے پڑھنے ہی سے حاصل ہوتی ہیں۔

    امیر عبد الباسط
    31 اکتوبر 2003
    ماخذ: http://urdu.understanding-islam.com/related/text.asp?type=question&qid=184&scatid=17

    مزید تفصیلات کے لئے دیکھئے :http://urdu.understanding-islam.com

  6. اجمل

    روغانی صاحب
    میں پہلے ہی لکھ چکا ہوں کہ میں نے اپنا علم صرف چار فقہاء تک محدود رکھا ہوا ہے کیونکہ میں اپنے آشپ کو اتنا نہیں پھیلا سکتا کہ سینکڑوں یا درجنوں علماء کا احاطہ کر سکوں ۔ ان چاروں کا مسلک بنیادی مسائل میں ایک ہی ہے اور انہوں نے کہا کہ ہم نے صرف وضاحت کی کوشش کی ہے اگر کوئی چیز قرآن یا حدیث سے متصادم نظر آئے تو باطل سمجھی جائے ۔ سن 300 ہجری کے بعد کے کئی مفکرین اپنا خیال اٹل طریقہ سے بیان کرتے ہیں جبکہ دین پر اجتہاد اُن کا طریقہ صحیح نہیں ہے ۔

    دیگر میں عرض کر دوں کہ تاریخ کے مطابق عمر رضی اللہ عنہ وہ شخص ہیں جن سے پوچھا گیا کہ بدعت کیا ہے ؟ تو اُنہوں نے فرمایا کہ جو سنّت نہیں وہ بدعت ہے ۔ کیا آپ ایسے شخص کے متعلق کہہ سکتے ہیں کہ وہ یا پہلے چار خلفاء رضی اللہ عنہم میں سے کوئی کسی بدعت کو رواج دیں گے ؟

  7. اجمل

    عمیر صاحب
    آپ نے ٹھیک لکھا ہے بلکہ یہی نہیں نماز کے دوران دونوں ہاتھ سوائے ارکانِ نماز کے کسی کام کیلئے اُٹھانے سے نماز ناقص ہو جاتی ہے اور ایک ہی رکن کے درمیان کوئی بھی حرکت تین بار کرنے سے بھی نماز ناقص ہو جاتی ہے ۔
    کیا آپ کے پاس اُردو لکھنے کا بندوبست نہیں ہے ؟ اگر کہیں تو میں لکھ کر ای میل کر دوں ؟

  8. اجمل

    محمد الطاف صاحب
    نماز کا طریقہ تو آپ کسی بھی قریبی مسجد میں جا کر خطیب صاحب سے معلوم کر سکتے ہیں ۔ آپ کی سہولت کیلئے میں نیچے کچھ رابطے درج کر رہا ہوں ۔ ان ویب سائٹس پر نماز کا طریقہ مع تصاویر دیا ہوا ہے ۔ بی بی سی والے ربط میں بڑی تصویر کے نیچے جو چھوٹی چھوٹی تصاویر ہیں ان پر باری باری بائیں سے داہنی طرف کلک کرتے جائیں تو بڑی تصویر بدلتی جائے گی ۔
    http://www.bbc.co.uk/religion/galleries/salah/
    http://www.islam-usa.com/pray7.html
    http://www.islamicacademy.org/html/Learn_Now/English/Learn_Now.htm
    http://members.cox.net/arshad/prayer.html

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.