حفظانِ صحت اور لمبی دوڑ

ہمارے مُلک میں تقریباً ہر چیز مُخَلّط کر دی گئی ہے یعنی اشیاء يا فرائض يا ذمّہ داريوں کی ایسی ملاوٹ کہ سمجھ نہ آئے اصل کونسی ہے ؟ آج بات لمبی دوڑ [Marathon Race] کے متعلق جو ایک ایسا سوال بنا دی گئی کہ لوگوں کے دماغ اُلجھ کر رہ گئے ۔ بحث میں ملوّث ہونے سے پہلے اپنے عْلم اور تجربہ کا مُختصر بیان ۔

میری عمر 65 سال سے زیادہ ہے ۔ قد 5 فٹ ساڑھے 9 اِنچ ۔ وزن آجکل 65 کیلو گرام ہے اور 72 کیلو گرام سے زیادہ کبھی نہیں ہوا ۔ میری کمر [Belt Size] آجکل 35 اِنچ ہے ۔ سکول اور کالج میں 28 اِنچ تھی ۔ درمیان میں زیادہ عرصہ 32 اور 34 اِنچ کے درمیان رہی ۔ میں اپنے سکول اور کالج میں اتھلِیٹ [Athlete] تھا اور 100 مِیٹر کی دوڑ میں اول یا دوم آیا کرتا تھا ۔ سکول میں ہاکی کا اور کالج میں باسکٹ بال کا کھلاڑی بھی تھا ۔ اِس کے علاوہ بہن بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ چِڑی چھِکّا [Badminton] کھیلتا تھا ۔ 1956 سے 1971 عیسوی تک میں نے پِنگ پانگ [Table Tennis] بھی کھیلی ۔ 1965 سے 1976 عیسوی تک میں نے سکواش [Squash] کھیلی ۔ نویں اور دسویں جماعتوں میں سائکل دوڑ میں بھی حصّہ لیا اور چوتھے اور تیسرے نمبر پر رہا [ آگے سے ۔ پیچھے سے نہیں ۔ ہی ہی ہی] ۔

سکول اور کالج میں ہماری تربیت والٹن سکول کے گریجوئیٹ [Graduate] قومی اتھلیٹک ٹیم کے رُکن اور بعد میں کوچ رہنے والے تجربہ کار اساتذہ نے کی ۔ اُنہیں پی ٹی آئی [Physical Training Instructor] کہا جاتا تھا ۔ اُس زمانہ میں دوڑیں 100 ۔ 200 ۔ 1625 ۔ 3250 اور 6500 میٹر ہوتی تھیں ۔ 6500 میٹر کو کراس کنٹری [Cross Country] کہا جاتا تھا ۔ خیال رہے کہ اُس زمانہ میں طلباء کے لئے پی ٹی [Physical Training] لازمی ہوتی تھی اور اس سے چھٹکارے کی صرف ایک ہی صُورت تھی کہ طالب علم سکول یا کالج کے کِسی کھیل کی باقاعدہ ٹیم کا رُکن ہو ۔ میں نے متذکّرہ بالا کھیلوں کے علاوہ سکول اور کالج میں پی ٹی بھی باقاعدہ کی ۔ 200 میٹر سے زیادہ کی دوڑیں صرف طلباء کے لئے ہوتی تھی طالبات کے لئے نہیں ۔ دیگر لمبیِ دوڑوں کے لئے پی ٹی آئی خود خاص قسم کے طلباء کا اِنتخاب کرتے تھے ۔ ہر کِسی کو اِس میں حصّہ لینے کی اجازت نہ تھی ۔ اِن منتخب طلباء کا خاص طِبّی معائینہ [Medical examination ] ہوتا اُس کے بعد طِبّی امتحان [Physical Test] ہوتا سب میں سے کامیاب ہونے کے بعد وہ لمبی دوڑ میں حصّہ لے سکتے ۔

ہمارے پی ٹی آئی سکول والے اور کالج والے بھی ہم سے کوِک مارچ [Quick march] کرواتے تھے اور کبھی کبھی تھوڑا دوڑاتے تھے مگر ڈبل مارچ [Jogging] سے منع کرتے تھے ۔

میں نے 1962 میں ملازمت شروع کی جو مقابلہ کے امتحان میں کامیابی کے بعد یکم مئی 1963 سے پکّی ہو گئی ۔ اُس زمانہ میں کلاس وَن آفیسروں کا ہر سال مکمل طِبّی معائنہ ہوتا تھا جو 1976 سے 1983 عیسوی تک میری مُلک سے باہر پوسٹنگ [Posting] کی وجہ سے نہ ہوا ۔ میں نے 1984 عیسوی میں زیادہ تفصیلی معائنہ کروایا اور اپنے میڈیکل سپیشیلِسٹ [Medical Specialist] سے کہا کہ مجھے ماہرِ امراضِ قلب کے پاس بھی تفصیلی معائنہ کے لئے بھیجے ۔ معائنہ مشہور ماہر امراضِ قلب کرنل ذوالفقار [ اب جنرل ریٹائرڈ] نے کیا ۔ اُس نے کہا “واک کرتے ہو ؟” میں نے ہاں میں جواب دے کر پوچھا “جاگِنگ کیا کروں ؟” اُس نے سختی سے کہا “بالکل نہیں”۔ میں نے کہا “لوگ جاگِنگ کرتے ہیں کہ دِل کے لئے ٹھیک ہوتی ہے”۔ اُس نے کہا “اخباروں اور رسالوں میں پڑھ کر کرتے ہیں ۔ جاگِنگ دِل کے لئے مُضِر ہے”۔

دین اِسلام سے قطعءِ نظر لمبی دوڑ [Marathon Race] کے حامیوں نے کبھی سوچا کہ لمبی دوڑ حِفظانِ صحت کے اُصُولوں کے مطابِق ہے بھی یا نہیں ؟ يا اُس کيلئے مناسب ہے يا مُضر ؟ جن لوگوں کی ہم نقّالی کرنے لگے ہیں اُن کے ہاں تو حفظانِ صحت کا ایک جامع نظام کئی دہائیوں سے مروّج ہے اِس لئے وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ۔ ہم بغیر سوچے سمجھے اُن کی تقلید کرنے لگ جاتے ہیں ۔ اگر امریکن یا یورپی لوگوں کا چہرہ سُرخ دیکھیں اور اپنا تھپّڑ مار مار کر یا بھیڑوں سے کٹوا کر سُرخ کر لیں ۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے ؟

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

8 thoughts on “حفظانِ صحت اور لمبی دوڑ

  1. میرا پاکستان

    واقعی ہر چیز کی زیادتی مضر صحت ہوتی ہے۔ ابھی کل کی خبر ہے کہ کیلیفورنیا میں ایک ریڈیو سٹیشن نے پانی پینے کا مقابلہ کروایا اور جیتنے والے کیلۓ انعام ایکس باکس تھا۔ ایک لڑکی مقابلہ جیت گئی مگر گھر پہنچ کر پانی زیادہ پینے کی وجہ سے رات کو فوت ہوگئ۔
    یاد رہے اس میراتھان کا مقصد صحت کا حصول نہیں تھا بلکہ پاکستان کا سافٹ امیج اجاگر کرنا تھا سو حکومت اپنے مقصد میں کامیاب ہوئی۔ تعلیم کے بعد صحت دوسرا محکمہ ہے جس کیلۓ سب سے کم حکومت بجٹ کا حصہ مختص کرتی ہے۔
    دراصل حکومت کو پہلے اپنی نیت کو ٹھیک کرنا ہوگا پھر سارے کام احسن طریقے سے انجام پاسکیں گے۔

  2. اجمل

    افضل صاحب
    آپ نے ٹھيک لکھا ہے ہمارے ہاں آجکل سب کچھ دشمنوں کو خوش رکھنے کيلئے ہو رہا ہے ۔ اپنوں کی کوئی پروا نہيں ۔

  3. Kia likhoon apnay aap ko?

    Ajmal sahib, aapnoon ka to baray ursay say koi khial naheen karta. Pehlay imma bargahoon, masjadoon, mandroon or churchoon pay humlay hothay thay. Ub itnay naheen hu rahay. Roshan khialee ka khuch to faida hoa kay naheen?

  4. اجمل

    کيا لکھوں اپنے آپ کو والے صاحب
    عبادت گاہوں پر حملہ جب ضرورت پڑتی ہے تو ہمارے حکمرانوں کے آقا اب خود کر ليتے ہيں پہلے وہ دوسروں کو ڈالر دے کر کرواتے رہے مگر قوم ميں پھوٹ نہ پڑ سکی ۔ دوسرے وہ آجکل عراق ميں يہی کام کرنے ميں بہت زيادہ مصروف ہيں ۔
    ديگر ہمارے ہاں موجودہ عُمدہ اور اصلی جمہوريت والی حکمرانی کی بدولت قتل ۔ ڈکيتی اور اغواء کی وارتيں معمول بن چکی ہيں ۔ اغواء ميں تو خير سے حکومتی [غيروں کی غلام] ايجنسياں کسی کو آگے نہيں نکلنے دے رہيں ۔ ذرا گھر سے باہر جانکيئے شائد سمجھ آ جائے

  5. اجمل

    قدير احمد رانا صاحب
    انشاء اللہ جلد کوشش کروں گا ۔ آجکل مصروفيت زيادہ ہے اور طبعيت بھی کچہ ٹھيک نہيں ۔

  6. Azhar Ul Haq

    انکل جی ، آپ نے اس میراتھن کے سیاسی پہلو پر غور نہیں کیا ، ہمارے سیاست دان کہتے ہیں وہ عوام کو سڑکوں پر لائیں گے ، مگر نہیں لا پاتے جنرل صاحب کے ایک ہی ہلے نے ہزاروں لوگوں کو سڑکوں پر لا بھگایا دوسری بات مغرب کی نقالی ، جنہیں آپ نے دشمن کہا ہے ، ارے انکل وہ ہی تو ہمارے سچے دوست ہیں ، مجھے یاد ہے ایک فورم پر جب میں نے قرآن کی آیت کوٹ کی کہ یہود و نصاریٰ کبھی تمہارے دوست نہیں ہو سکتے ، تو مجھے اتنا لتاڑا گیا کہ ابھی تک “ٹیسیں“ اٹھتیں ہیں ، جب ہماری قوم کا معیار ترقی “اسلام“ کے بجائے “روشن خیالی“ ہو اور اوپر سے ہم اسلام اسلام کی رٹ بھی لگائیں تو ۔ ۔ ۔ پھر ہماری قوم کو ایسے ہی بھاگتے رہنا پڑے گا ۔ ۔

    ویسے آپ کی تحریر نے مجھے اپنے پی ٹی انسٹرکٹر یاد کروا دئیے ، میں نے بھی پنڈی کے اسٹینڈر انگلش اسکول میں پرائمری تک پڑھا ، اور وہ دن آج بھی میرے خیالوں میں نقش ہیں ۔ ۔ ۔ آج کی نئی نسل کو ویڈیو گیمز سے جان چھوٹے تو وہ کچھ پی ٹی کریں نا ۔ ۔ میری بدقسمتی کہ ساتویں جماعت کے بعد سے میں پی ٹی سے “مبرا“ قرار دے دیا گیا ۔ ۔ ۔ اور آج تک ہوں ۔ ۔ ؛)

  7. اجمل

    اظہرالحق صاحب
    اپنی قوم کے متعلق ميں ايک جملہ کہا کرتا ہوں ۔ ميں کون ہوں کيا ہوں مجھے خود بھی خبر نہيں ۔
    ميں نے اپنا پہلا انگريزی ميں بلاگ ۔ منافقت [اب حقيقت اکثر تلخ ہوتی ہے] ۔ اسی وجہ سے شروع کيا اور دوسرا بلاگ اُردو ميں ۔ ميں کيا ہوں ۔ بھی اسی چيز کو اُجا گر کرنے کيلئے شروع کيا ۔ بيچ ميں دوسری تحارير قارئين کی دلچسپی برقرار رکھنے کيلئے شامل کرتا رہتا ہوں ۔

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.