Monthly Archives: January 2007

بلاگسپاٹ کے بلاگرز کے نام

کل يعنی جمعہ مبارک صبح سے بلاگسپاٹ کے بلاگ کھلنا شروع ہو گئے تھے اور آج دوپہر تک کھل رہے تھے ليکن آج عصر کے بعد سے پھر بلاگسپاٹ کا کوئی بلاگ مجھ سے نہيں کھُل سکا ۔ اسلئے اُن تمام خواتين اور حضرات جن کے بلاگسپاٹ پر بلاگ ہيں کو مطلع کرنا چاہتا ہوں کہ پابندی کی وجہ سے پاکستان ميں بلاگسپاٹ اگر کسی طرح کھول بھی ليں تو اس پر تبصرہ شائع نہيں کر سکتے ۔ ميرا خيال ہے کہ پاکستان ميں رہنے والے باقی قارئين کو بھی اسی صورتِ حال کا سامنا ہوگا ۔

جن خواتين و حضرات کے بلاگ بلاگسپاٹ پر ہيں اگر وہ چاہتے ہيں کہ اُن کے بلاگ پاکستان ميں بسنے والے پڑھيں اور اپنی رائے کا اظہار بھی کريں تو اُن سے درخواست ہے کہ وہ اپنے بلاگ کسی اور ڈومين پر منتقل کر ليں ۔ ان ميں مندرجہ ذيل بلاگر بالخصوص توجہ کريں

urdudaan.blogspot.com
khawarking.blogspot.com
radianceofexistance.blogspot.com
subhanaahmed.blogspot.com
urdutechnews.blogspot.com
urduonline.blogspot.com
urdijahan.blogspot.com
emullah.blogspot.com

خبردار کا جواب

گو مسئلہ خاور کھوکھر صاحب نے پيش کيا ہے مگر ہے سب مسلمانوں کا مسئلہ اسلئے تمام قارئين کی نذر کر رہا ہوں ۔

خاور کھوکھر صاحب لکھتے ہيں کہ وہ مہينہ ايک آدھ بار گريک سنڈوچ يا ڈونر کباب کھاليا کرتے تھے ۔ اس کا نام دراصل شَورما ہے اور يہ مسلمانوں کے کھانوں ميں سے ايک ہے جو کہ بين الاقوامی بن گيا ۔ شَورما بنيادی طور پر بکرے يا دُنبے يا گائے کے گوشت سے بنايا جاتا ہے ۔ آجکل جسے برگر کہتے ہيں اس کا نام پہلے ہَيمبُرگر تھا کيونکہ جرمنی کے شہر ہَيمبُرگ ميں بنايا گيا تھا اور اس سے پہلے اس کا نام وِمپی تھا جو کہ مسلمان ترکو ں نے بنايا تھا ۔ اسلئے اس ميں بھی بکرے ۔ دُنبے يا گائے کا گوشت استعمال ہوتا تھا ۔ اسی طرح ساسيجز ميں بھی کسی زمانہ ميں صرف گائے کے گوشت کا قيمہ ہوتا تھا ۔ مگر اب مغربی ملکوں ميں اس کی گارينٹی نہيں دی جا سکتی ۔ وہاں تو يہ حال ہے کہ 1977 عيسوی ميں ہالينڈ کے شہر ماس ترِکت کے ايک ہوٹل ميں صرف اُبلے ہوئے چاول منگوائے ۔ جب چاول لائے گئے تو اُن پر بالکل چھوٹے چھوٹے ٹکڑے لال رنگ کے پڑے تھے ۔ پوچھا تو سؤر کا گوشت تھا ۔ پوچھا يہ کيا ؟ جواب ملا ڈيلی کيسی ہے ۔ بغير کھا پيسے دئے اور ايک ريڑی سے کيلے اور سيب ليکر کھا لئے ۔


اب خاور صاحب کی بيماری کا علاج ۔

جناب آپ نے بے خبری ميں کھا ليا اُس کيلئے اللہ سے معافی مانگ ليجئے اور آئيندہ احتياط کيجئے ۔ اللہ رحيم و کريم ہے ۔ رمضان ميں بھول کر کہ روزہ ہے کوئی کچھ کھا لے تو روزہ نہيں ٹوٹتا ۔ يہ تو آپ کے علم ہی ميں نہ تھا ۔ ميرے خيال ميں گناہگار وہ ہے جس نے علم ہوتے ہوئے اسے حلال کے طور بيچا ۔ متعلقہ آيات درج ہيں ۔


سُورت الْبَقَرَہ ۔ آيات 172 اور 173

اے ایمان والو! ان پاکیزہ چیزوں میں سے کھاؤ جو ہم نے تمہیں عطا کی ہیں اور اﷲ کا شکر ادا کرو اگر تم صرف اسی کی بندگی بجا لاتے ہو ۔

اس نے تم پر صرف مُردار اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جانور جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو حرام کیا ہے، پھر جو شخص سخت مجبور ہو جائے نہ تو نافرمانی کرنے والا ہو اور نہ حد سے بڑھنے والا تو اس پر کوئی گناہ نہیں، بیشک اﷲ نہایت بخشنے والا مہربان ہے


سُورت الْمَآئِدَہ ۔ آيات 3 اور 4

تم پر مردار حرام کر دیا گیا ہے اور خون اور سؤر کا گوشت اور وہ جس پر ذبح کے وقت غیر اﷲ کا نام پکارا گیا ہو اور گلا گھٹ کر مرا ہوا اور ضرب سے مرا ہوا اور اوپر سے گر کر مرا ہوا اور سینگ مارنے سے مرا ہوا اور وہ جسے درندے نے پھاڑ کھایا ہو سوائے اس کے جسے تم نے ذبح کر لیا، اور جو آستانوں پر ذبح کیا گیا ہو اور یہ کہ تم پانسوں کے ذریعے قسمت کا حال معلوم کرو یہ سب کام گناہ ہیں۔ آج کافر لوگ تمہارے دین [کے غالب آجانے کے باعث اپنے ناپاک ارادوں] سے مایوس ہو گئے، سو [اے مسلمانو!] تم ان سے مت ڈرو اور مجھ ہی سے ڈرا کرو ۔ آج میں نے تمہارے لئے تمہارا دین مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت پوری کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو [بطور] دین [یعنی مکمل نظامِ حیات کی حیثیت سے] پسند کر لیا۔ پھر اگر کوئی شخص بھوک کی شدت میں اضطراری حالت کو پہنچ جائے [اس شرط کے ساتھ] کہ گناہ کی طرف مائل ہونے والا نہ ہو تو بیشک اﷲ بہت بخشنے والا نہایت مہربان ہے

لوگ آپ سے سوال کرتے ہیں کہ ان کے لئے کیا چیزیں حلال کی گئی ہیں، آپ فرما دیں کہ تمہارے لئے پاک چیزیں حلال کر دی گئی ہیں اور وہ شکاری جانور جنہیں تم نے شکار پر دوڑاتے ہوئے یوں سدھار لیا ہے کہ تم انہیں (شکار کے وہ طریقے) سکھاتے ہو جو تمہیں اﷲ نے سکھائے ہیں، سو تم اس [شکار] میں سے [بھی] کھاؤ جو وہ [شکاری جانور] تمہارے لئے [مار کر] روک رکھیں اور [شکار پر چھوڑتے وقت] اس پر اﷲ کا نام لیا کرو اور اﷲ سے ڈرتے رہو۔ بیشک اﷲ حساب میں جلدی فرمانے والا ہے

خواتين کے حقوق محفوظ ہوگئے ؟ ؟ ؟

ميں شعيب صفدر صاحب کا مشکور ہوں کہ نئے قانون تحفظِ حقوق خواتين کے ويب پر شائع ہوتے ہی اس کا لِنک مجھے بھيج ديا ۔ اس کا مطالعہ سکون سے کرنا ضروری تھا ۔ ميں کچھ ذاتی کاموں ميں مصروف تھا ۔ پھر ايک رات جب کہ درجہ حرارت نقطہ انجماد سے نيچے تھا ميں آدھی رات کو لحاف سے نکل کر قدير احمد رانا صاحب کی طرح صرف شلوار قميص پہنے غسلخانہ چلا گيا جو کہ غسلخانہ کيا برف خانہ تھا ۔ سو مجھے تيز بخار ہو گيا ۔ بخار کم ہوا تو ميرے کمپيوٹر کے سرور [Server] نے نخرے دکھانے شروع کر ديئے ۔ چنانچہ تاخير ہو گئی ۔
زنا زبردستی سے کيا جائے يا باہمی رضامندی سےقرآن شريف اور سنّتِ رسول اللہ محمد صَلَّ اللہُ عَلَيہِ وَ سَلَّم کے مطابق زانی اور زانيہ کی سزا ميں کوئی فرق نہيں ہے اور سزاسو کوڑے يا رجم ہے البتہ زنا بالجبر کی صورت ميں عورت کو باعزت بری کر ديا جاتا ہے اور زانی مرد کو سزا دی جاتی ہے ۔

تحفظِ حقوق خواتين کا قانون منظور کرانے کا مقصد خواتين کے حقوق محفوظ کرنا ہے يا بے راہ روی کو محفوظ کرنا ۔ يہ نئے قانون کی مندرجہ ذيل صرف تين دفعات پڑھنے سے ہی واضح ہو جاتا ہے ۔

زنابالجبر کے لئے سزا 376

[1] جو کوئی زنا بالجبر کا ارتکاب کرتا ہے اسے سزائے موت یا کسی ایک قسم کی سزائے قید جو کم سے کم پانچ سال یا زیادہ سے زیادہ پچیس سال تک ہو سکتی ہے دی جائے گی اور جرمانے کی سزا کا بھی مستوجب ہو گا۔

٤٩496۔ ب ۔ باہمی رضا مندی سے زنا کی سزا

[2] اگر عورت اور مرد باہمی رضامندی سے زنا کے مرتکب ہوں تو انہيں قيد کی سزا دی جا سکتی ہے جس کی معياد پانچ سال تک بڑھائی جا سکتی ہے ۔ اس کے علاوہ جرمانہ بھی کيا جا سکتا ہے جو دس ہزار روپے سے زيادہ نہ ہو ۔

٢٠٣ 203 ۔ الف ۔ زنا کی صورت ميں نالش

[1] کوئی عدالت زناء کے جرم (نفاذ حدود) آرڈیننس کے تحت کسی جرم کی سماعت نہیں کرے گی ماسوائے اس نالش کے جو کسی اختیار سماعت رکھنے والی مجاز عدالت میں دائر کی جائے۔

[2] کسی نالش جرم کا اختیار سماعت رکھنے والی عدالت کا افسر صدارت کنندہ فوری طور پر مستغیث اور زنا کے فعل کے کم از کم چار چشم دید بالغ گواہوں کی حلف پر جرم کے لئے ضروری جانچ پڑتال کرے گا۔

[3] مستغیث اور عینی گواہوں کی جانچ پڑتال کرنے کے لئے مواد کو تحریر تک محدود کر دیا جائے گا اور اس پر مستغیث اور عینی گواہوں کے علاوہ عدالت کے افسر صدارت کنندہ کے بھی دستخط ہوں گے۔

[4] اگر عدالت کے افسر صدارت کنندہ کی یہ رائے ہو کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود ہے تو عدالت ملزم کی اصالتاَ حاضری کے لئے سمن جاری کرے گا۔

[5] کسی عدالت کا افسر صدارت کنندہ جس کے روبرو نالش دائر کی گئی ہو یا جس کو یہ منتقل کی گئی ہو اگر وہ مستغیث اور چار یا زائد عینی گواہوں کے حلفیہ بیانات کے بعد یہ فیصلہ دے کہ کاروائی کے لئے کافی وجہ موجود نہیں ہے، نالش کو خارج کر سکے گا اور ایسی صورت میں وہ اس کی وجوہات قلمبند کرے گا۔

ڈسٹرکٹ اينڈ سيشن جج کو مجاز جج قرار ديا گيا ہے ۔

تبصرہ ۔

زنا بالجبر ثابت ہو جانے پر بھی موت کی سزا دينا ضروری نہيں رہا بلکہ پانچ سال قيد کی سزا دے کر بھی فارغ کيا جا سکتا ہے ۔ سو کوڑے يا رجم کی سزا ختم کر دی گئی ہے جو اللہ تعالٰی کے حکم کی صريح خلاف ورزی ہے ۔

اگر باہمی رضامندی سے زنا کا ارتکاب ثابت ہو جائے تو زيادہ سے زيادہ پانچ سال قيد کی سزا دی جا سکتی ہے ۔ اس ميں بھی سو کوڑے يا رجم کی سزا ختم کر دی گئی ہے جو اللہ تعالٰی کے حکم کی صريح خلاف ورزی ہے ۔

چار تزکيۂِ نفس رکھنے والے چشم ديد گواہ کہاں سے آئيں گے جن پر مجاز جج کو بھی اعتبار ہو ؟

کيا متذکّرہ تخفيف شدہ سزا بھی صرف کھُلے عام زنا کرنے والوں کيلئے ہے ؟  قانون کی شِقوں سے تو ايسا ہی ظاہر ہوتا ہے ۔

ڈسٹرکٹ اينڈ سيشن جج کو مجاز جج قرار ديا گيا ہے ۔ نہ پوليس اور نہ کسی اور جج کو زنا کے سلسلہ ميں کسی قسم کی کاروائی کا کوئی اختيار ہو گا اور نہ کوئی جج از خود نوٹس لے کر کاروائی کر نے کا مجاز ہو گا ۔ چنانچہ کسی دُور دراز علاقہ ميں بھی کوئی زنا کا مرتکب ہو گا تو مستغيث اور چار چشم ديد گواہوں کو ڈسٹرکٹ ہيڈکوارٹر جا کر ڈسٹرکٹ اينڈ سيشن جج کے سامنے پيش ہو کر اپنے بيانات قلمبند کرانا ہوں گے جبکہ ہمارے ملک ميں تو اپنے ہی شہر ميں مقدمہ درج کروانا مشکل ہوتا ہے ۔

اس قانون سے تو يہی اخذ کيا جا سکتا ہے کہ زنا کے مرتکب مرد اور عورت کو صرف اسی وقت سزا ملے گی جب کوئی بااثر شخص اُنہيں سزا دينا چاہے گا اور وہ سچے يا جھوٹے گواہ مہيّا کر دے گا ۔ جہاں تک بااثر لوگوں کا تعلق ہے وہ اب بغير خطرے کے پہلے سے زيادہ رنگ رلياں منائيں گے ۔

کہاں گئے مغرب زدہ اين جی اوز اور دوسرے روشن خيالوں کے جديد طريقوں کے وہ بلند بانگ دعوے جن کو قرآن شريف پر ترجيح دی جا رہی تھی ؟ حقيقت يہ ہے کہ اُن کی عياشی پر قدغن تھی سو اب وہ مکمل طور پر آزاد ہو گئے ہيں ۔ جس دن يہ قانون منظور ہوا لاہور کے بازارِ حُسن ميں جشن منايا گيا تھا اور مٹھائی بانٹی گئی تھی ۔ چند مادر پدر آزاد اين جی اوز نے بھی مٹھائی بانٹی اور ايک دوسرے کو مبارکباد دی ۔ يہ ہے وہ تاريک اور گھناؤنا غار جس ميں ہمارے روشن خيال حکمران ہماری قوم کو دھکيل رہے ہيں ۔

میراتھان ریس اور اِسلام

میں نے پچھلی تحریر میں حفظانِ صحت کے اصولوں اور لمبی دوڑ [Marathon Race]کا جائزہ پیش کیا تھا ۔ اب لمبی دوڑ اور دِین اِسلام کا تقابل ۔ تقابل میں سوال یہ پیدا ہوتا ہے کہ کیا دین اِسلام ورزش یا کھیل یا حفظانِ صحت کی مخالفت کرتا ہے ؟ ۔ صحیح جواب ہے ” نہیں ایسا بالکل نہیں ہے” ۔

ہماری یہ عادت بن چُکی ہے کہ ہم پراپیگنڈا سے بہت جلد اور بہت زیادہ مُتأثر ہوتے ہیں ۔ دین کے معاملہ میں بھی ہم گھر میں مترجم قُرآن شریف موجود ہونے کے باوجود اُسے پڑھ کر اُس پر عمل کرنے کی بجائے پراپیگنڈہ کے دین پر عمل کرتے ہیں اور ایسا کرتے ہوئے متعدد بار [بِلا ارادہ] قُرآن اور اللہ کے احکام کی خلاف ورزی کرتے ہیں ۔ ہم اَلْحَمْدُللہ مسلمان ہیں اِسلئے ہمارا فرض بنتا ہے کہ ہم قرآن الحکیم ۔ احادیث اور اسواءِ حَسَنہ سے اِستفادہ حاصل کریں ۔

قُرآن الحکیم کی سورت اَلْانْفَالْ کی آیت 60 کا ترجمہ ہے ” اور جس قدر ہو سکے طاقت اور تیار بندھے رہنے والے گھوڑے مہیا رکھو تا کہ تم اللہ کے اور اپنے دشمنوں کو ڈراتے رہو اور اُن دوسرے دشمنوں کو بھی جن کو تم نہیں جانتے مگر اللہ جانتا ہے ۔ “

یہ آیت دفاعی تیاری کے متعلق ہے ۔ اِس میں دو چیزوں کا واضح ذکر ہے ۔ ایک طاقت اور دوسری تیار گھوڑے ۔ طاقت کے لئے مناسب اور باقاعدہ ورزش بہت ضروری ہے جس میں کھیل کود بھی شامل ہے ۔ تیار گھوڑے سے مُراد سِدھائے ہوئے گھوڑے ہے اور اِن کا استعمال سواری ہے ۔ گھوڑوں کو سِدھانے اور سواری کے لئے بھی خاص قسم کی ورزش کی باقاعدہ ضرورت ہے ۔ خيال رہے کہ اُس زمانہ ميں آجکل کی طرح فوج ايک عليحدہ گروہ نہيں ہوتی تھی بلکہ ہر عاقل بالغ مرد فوجی ہوتا تھا ۔ چنانچہ يہ حُکم ہر مُسلمان کيلئے ہے ۔

قرآن شریف میں کھانے پینے اور رہنے سہنے کے جو طریقے سمجھائے گئے ہیں وہ سب حِفظانِ صحت کے اُصُولوں کے عین مطابق ہیں ۔ احادیث اور اسواءِ حسنہ کے مطالعہ سے پتہ چلتا ہے کہ رسول اللہ صَلّ اللہِ عَلَیہِ وَ سَلَّم نے دوڑ لگانے ۔ تیر اندازی ۔ تلوار بازی اور نیزہ بازی کی ترغیب دی ۔ اِس سے ثابت ہوتا ہے کہ اسلام نہ صرف صحتمند کھیلوں کا مخالف نہیں بلکہ اُن کی حمائت کرتا ہے ۔

لاہور کی لمبی دوڑ کی مخالفت میں مولوی حضرات نے جو مؤقف اِختیار کیا وہ یہ تھا کہ خواتین مردوں کے شانہ بشانہ نہ بھاگیں ۔ چنانچہ یہ کہنا درست نہیں ہے کہ مولوی صحتمند عمل کی مخالفت کرتے ہیں ۔ جس بناء پر مولوی حضرات نے مخالفت کی وہ ایک الگ اور وسیع موضوع ہے اور اُسے بھی قرآن اور سُنّت کی روشنی میں دیکھنا ضروری ہے ۔

حفظانِ صحت اور لمبی دوڑ

ہمارے مُلک میں تقریباً ہر چیز مُخَلّط کر دی گئی ہے یعنی اشیاء يا فرائض يا ذمّہ داريوں کی ایسی ملاوٹ کہ سمجھ نہ آئے اصل کونسی ہے ؟ آج بات لمبی دوڑ [Marathon Race] کے متعلق جو ایک ایسا سوال بنا دی گئی کہ لوگوں کے دماغ اُلجھ کر رہ گئے ۔ بحث میں ملوّث ہونے سے پہلے اپنے عْلم اور تجربہ کا مُختصر بیان ۔

میری عمر 65 سال سے زیادہ ہے ۔ قد 5 فٹ ساڑھے 9 اِنچ ۔ وزن آجکل 65 کیلو گرام ہے اور 72 کیلو گرام سے زیادہ کبھی نہیں ہوا ۔ میری کمر [Belt Size] آجکل 35 اِنچ ہے ۔ سکول اور کالج میں 28 اِنچ تھی ۔ درمیان میں زیادہ عرصہ 32 اور 34 اِنچ کے درمیان رہی ۔ میں اپنے سکول اور کالج میں اتھلِیٹ [Athlete] تھا اور 100 مِیٹر کی دوڑ میں اول یا دوم آیا کرتا تھا ۔ سکول میں ہاکی کا اور کالج میں باسکٹ بال کا کھلاڑی بھی تھا ۔ اِس کے علاوہ بہن بھائیوں اور دوستوں کے ساتھ چِڑی چھِکّا [Badminton] کھیلتا تھا ۔ 1956 سے 1971 عیسوی تک میں نے پِنگ پانگ [Table Tennis] بھی کھیلی ۔ 1965 سے 1976 عیسوی تک میں نے سکواش [Squash] کھیلی ۔ نویں اور دسویں جماعتوں میں سائکل دوڑ میں بھی حصّہ لیا اور چوتھے اور تیسرے نمبر پر رہا [ آگے سے ۔ پیچھے سے نہیں ۔ ہی ہی ہی] ۔

سکول اور کالج میں ہماری تربیت والٹن سکول کے گریجوئیٹ [Graduate] قومی اتھلیٹک ٹیم کے رُکن اور بعد میں کوچ رہنے والے تجربہ کار اساتذہ نے کی ۔ اُنہیں پی ٹی آئی [Physical Training Instructor] کہا جاتا تھا ۔ اُس زمانہ میں دوڑیں 100 ۔ 200 ۔ 1625 ۔ 3250 اور 6500 میٹر ہوتی تھیں ۔ 6500 میٹر کو کراس کنٹری [Cross Country] کہا جاتا تھا ۔ خیال رہے کہ اُس زمانہ میں طلباء کے لئے پی ٹی [Physical Training] لازمی ہوتی تھی اور اس سے چھٹکارے کی صرف ایک ہی صُورت تھی کہ طالب علم سکول یا کالج کے کِسی کھیل کی باقاعدہ ٹیم کا رُکن ہو ۔ میں نے متذکّرہ بالا کھیلوں کے علاوہ سکول اور کالج میں پی ٹی بھی باقاعدہ کی ۔ 200 میٹر سے زیادہ کی دوڑیں صرف طلباء کے لئے ہوتی تھی طالبات کے لئے نہیں ۔ دیگر لمبیِ دوڑوں کے لئے پی ٹی آئی خود خاص قسم کے طلباء کا اِنتخاب کرتے تھے ۔ ہر کِسی کو اِس میں حصّہ لینے کی اجازت نہ تھی ۔ اِن منتخب طلباء کا خاص طِبّی معائینہ [Medical examination ] ہوتا اُس کے بعد طِبّی امتحان [Physical Test] ہوتا سب میں سے کامیاب ہونے کے بعد وہ لمبی دوڑ میں حصّہ لے سکتے ۔

ہمارے پی ٹی آئی سکول والے اور کالج والے بھی ہم سے کوِک مارچ [Quick march] کرواتے تھے اور کبھی کبھی تھوڑا دوڑاتے تھے مگر ڈبل مارچ [Jogging] سے منع کرتے تھے ۔

میں نے 1962 میں ملازمت شروع کی جو مقابلہ کے امتحان میں کامیابی کے بعد یکم مئی 1963 سے پکّی ہو گئی ۔ اُس زمانہ میں کلاس وَن آفیسروں کا ہر سال مکمل طِبّی معائنہ ہوتا تھا جو 1976 سے 1983 عیسوی تک میری مُلک سے باہر پوسٹنگ [Posting] کی وجہ سے نہ ہوا ۔ میں نے 1984 عیسوی میں زیادہ تفصیلی معائنہ کروایا اور اپنے میڈیکل سپیشیلِسٹ [Medical Specialist] سے کہا کہ مجھے ماہرِ امراضِ قلب کے پاس بھی تفصیلی معائنہ کے لئے بھیجے ۔ معائنہ مشہور ماہر امراضِ قلب کرنل ذوالفقار [ اب جنرل ریٹائرڈ] نے کیا ۔ اُس نے کہا “واک کرتے ہو ؟” میں نے ہاں میں جواب دے کر پوچھا “جاگِنگ کیا کروں ؟” اُس نے سختی سے کہا “بالکل نہیں”۔ میں نے کہا “لوگ جاگِنگ کرتے ہیں کہ دِل کے لئے ٹھیک ہوتی ہے”۔ اُس نے کہا “اخباروں اور رسالوں میں پڑھ کر کرتے ہیں ۔ جاگِنگ دِل کے لئے مُضِر ہے”۔

دین اِسلام سے قطعءِ نظر لمبی دوڑ [Marathon Race] کے حامیوں نے کبھی سوچا کہ لمبی دوڑ حِفظانِ صحت کے اُصُولوں کے مطابِق ہے بھی یا نہیں ؟ يا اُس کيلئے مناسب ہے يا مُضر ؟ جن لوگوں کی ہم نقّالی کرنے لگے ہیں اُن کے ہاں تو حفظانِ صحت کا ایک جامع نظام کئی دہائیوں سے مروّج ہے اِس لئے وہ لوگ سمجھتے ہیں کہ اُنہیں کیا کرنا ہے اور کیا نہیں ۔ ہم بغیر سوچے سمجھے اُن کی تقلید کرنے لگ جاتے ہیں ۔ اگر امریکن یا یورپی لوگوں کا چہرہ سُرخ دیکھیں اور اپنا تھپّڑ مار مار کر یا بھیڑوں سے کٹوا کر سُرخ کر لیں ۔ یہ کہاں کی عقلمندی ہے ؟

جاگتی مغربی دنيا

اگر آپ 15 دسمبر سے یکم جنوری تک یورپ یا امریکہ میں رہے ہوں اور غروبِ آفتاب کے بعد سير کو نکلے ہوں تو آپ نے رات گئے تک چونکا دینے والی رونق دیکھی ہو گی ۔ میرا تجربہ بہت پُرانا ہے ۔ میں اور دو پاکستانی ساتھی 1966 عیسوی میں کسی پراجیکٹ کے سلسلہ میں ڈوسل ڈورف[Dueüsseldorf] جرمنی میں تھے ایک رات رونق دیکھنے نکلے ۔ بقول ایک مغرب زدہ پاکستانی کے ہم تینوں ہی نالائق اور اُجَڈ تھے کیونکہ نہ تو ہم اُم الخباعث [alcoholic drinks] پیتے تھے اور نہ ہمیں ناچنا آتا تھا ۔ اسلئے ہم سڑکوں پر گھوم کر دُور دُور سے ہی رونق دیکھتے رہے ۔ پھر بھی ہمیں دلچسپ واقعات دیکھنے کو ملے ۔ ایک جگہ کچھ لوگ اکٹھے ایک دائرہ کی شکل میں کھڑے تھے ۔ ہم نے وہاں پہنچ کر دیکھا تو ایک عورت اور ایک مرد کوئی 3 میٹر کے فاصلہ سے ایک کھمبے کی طرف باری باری یہ کہہ کر بھاگتے ہوئے آتے کہ اس بار کھمبے پر چڑھ جانا ہے لیکن کھمبے کے پاس پہنچ کر رُک جاتے اور واپس چلے جاتے ۔ اُن کی تصویر تو میرے پاس نہیں مگر یہ بھی کُچھ اسی طرح کی حرکت ہے