Monthly Archives: December 2006

حج۔عيدمبارک

سب مسلم بہنوں اور بھائيوں کو عيد الاضحٰی کی خوشياں مبارک ۔

سنتِ ابراھيم پر عمل کرنے والوں کو قربانی مبارک ۔ اللہ آپ کی قربانی قبول فرمائے ۔

حج کرنے والوں کو حج مبارک ۔ اللہ آپ کا حج اور متعلقہ عبادات قبول فرمائے ۔

اُميد ہے حرمين شريفين ميں پاکستانی زائرين نے دعا کی ہو گی کہ اللہ ہمارے ملک کے لوگوں کو سيدھی راہ پر چلائے اور ہمارے ملک پر صالح اور سمجھدارحکمران فائز فرمائے ۔ آمين ثم آمين يا رب العالمين ۔

صلہ ہم نے کيا ديا ؟

آج برِّ صغير ہندوپاکستان کے مُسلمانوں کے عظيم رہنما قائداعظم محمد علی جناح جس کو اللہ تعالٰی نے شعور ۔ منطق اور استقلال سے نوازا تھا کا يومِ ولادت ہے ۔ اِن اوصاف کے بھرپور استعمال سے اُس نے ہميں ايک اللہ کی نعمتوں سے مالا مال ملک لے کر ديا مگر ہماری قوم نے اُس عظيم رہنما کے عمل اور قول کو بھُلا ديا جس کے باعث ہماری قوم اقوامِ عالَم ميں بہت پيچھے رہ گئی ہے

۔قائداعظم کا ايک پيغام ہے

کام ۔ کام ۔ کام اورکام

آئيے اس پر عمل کريں اور آگے بڑھيں

ذو الحجہ کی اہميت

ذو الحجہ کی پاکستان ميں آج پہلی تاريخ ہے ۔ اس ماہ کے پہلے عشرہ ميں عبادت اور اللہ کے ذکر کا بہت زيادہ اجر اللہ سُبْحَانُہُ و تعالٰی نے رکھا ہے ۔ اللہ تعالٰی نے سورت الفجر ميں جن دس راتوں کی قسم کھائی ہے مُختلف احاديث کے مطابق يہ دس راتيں ذوالحجہ کا پہلا عشرہ ہی ہے ۔ ذوالحجہ کے پہلے نو دن روزے رکھنا بہت زيادہ ثواب کا سبب بنتا ہے بالخصوص يومِ عرفات اور اس سے پچھلے دو دن کے روزے دوسرے دنوں ايک سال کے روزے رکھنے کے برابر ہيں ۔ روزے نہ رکھ سکيں تو تلاوتِ قرآن اور دوسری عبادات کيجئے ۔ اگر کچھ اور نہ کر سکيں تو يکم سے بارہ ذوالحجہ تک مندرجہ ذيل تسبيح کا ورد کرتے رہيئے ۔

اللہُ أکْبَرْ اللہُ أکْبَرْ لَا اِلَہَ اِلْاللہ وَ اللہُ أکْبَرْ اللہُ أکْبَرْ وَ للہِ الْحَمْد ۔ اللہُ أکْبَرْ کَبِیْرًا وَالْحَمْدُلِلہِ کَثِیْرًا وَ سُبْحَانَ اللہِ بُکْرَۃً وَ أصِیْلًا

اور اب امريکن لڑکی

پچھلے ماہ قارئين نے پڑھا يا سُنا ہوگا کہ ايک کينڈين لڑکی نے کينڈا سے وزيرستان پہنچ کرايک مقامی پاکستانی لڑکے سے شادی کر لی اور بيان ديا تھا کہ وزيرستان ميں دہشتگرد نہيں بلکہ محبت کرے والے لوگ رہتے ہيں ۔

اب پچھلے ہفتہ لاہور کے ايک مضافاتی علاقہ مغلپورہ ميں ايک مقامی لڑکے کے ساتھ امريکہ کی رياست ٹيکسس [Texas] کی رہنے والی ايک اُستانی کی پاکستانی روائتی طريقہ سے شادی ہوئی ۔ وہ خاص طور پر شادی کرنے کيلئے لاہور آئی تھی ۔ مغلپورہ کے لڑکے عامر سے امريکن اُستانی کا تعارف چار سال قبل انٹر نيٹ کے ذريعہ ہوا ليکن شادی کا سبب پاکستان کا روائتی فيملی سسٹم بنا ۔

امريکن خاتون نے لاہوری دُلہن والا لباس پہنا جو اسے بہت پسند آيا ۔ وہ يہ ديکھ کر بہت متأثر ہوئی کہ کس طرح پاکستانی لوگ گھُل مل کو اور بڑے شوق ولولے سے شادی ميں شريک ہوتے ہيں اور خوش ہوتے ہيں ۔ پاکستانيوں کے متعلق اس نے کہا کہ يہاں کے لوگ ايک دوسرے کا خيال رکھتے ہيں اور آؤ بھگت کرنے والے ہيں ۔ اسلام کے متعلق پوچھے گئے سوال پر دُلہن نے کہا کہ ميں نے عامر سے تعارف کے بعد اسلام کا بہت مطالعہ کيا ۔ اسلام کی تعليمات زبردست ہيں بالخصوص بچوں کی پرورش اور خاندانی تعلقات کے حوالہ سے ۔

ہنسنا رونا منع ہے

اپنے ہی لوگوں کی مٹی پلید جیسے ہمارے ملک میں حکومت اور اس کے ادارے کرتے ہیں ایسا یورپ اور امریکہ تو کیا لبیا اور سعودی عرب میں بھی نہیں ہوتا ۔ ان ملکوں میں بعض اوقات انسانی جان بچانے کيلئے کئی ادارے بیوقوف بن جاتے ہیں ۔ ایسا ہی ایک واقع ۔

چھٹی کا دن تھا ۔ ایک بہت بڑی کمپنی کے کمپیوٹر میں گڑبڑ ہو گئی تو کمپنی کے ایم ڈی نے ماہر انجنیئر کے گھر ٹیلیفون کیا ۔

ایک بچے کی مدھم سی آواز آئی ۔ ہیلو ۔

ایم ڈی ۔ ابو گھر میں ہیں ؟

بچہ ہلکی آواز میں ۔ ہاں ۔

ایم ڈی ۔ میں ان سے بات کر سکتا ہوں ؟

بچہ ۔ نہیں ۔

ایم ڈی نے سوچا شائد غسلخانہ میں ہوں اور پوچھا ۔ آپ کی امی ہیں ؟

بچہ ۔ ہاں ۔

ایم ڈی نے التجا کی ۔ بیٹا اپنی امی سے بات کرا دیں ۔

بچے نے اسی طرح مدھم آواز میں کہا ۔ نہیں ۔

ایم ڈی نے سوچا شائد وہ باورچی خانہ میں ہو ۔ اتنے چھوٹے بچے کو اکیلا تو نہیں چھوڑا جا سکتا چنانچہ اس نے کہا ۔ آپ کے قریب کوئی تو ہو گا ؟

بچہ مزید مدھم آواز میں بولا ۔ ہاں پولیس مین ۔

ایم ڈی حیران ہوا کہ کمپنی کے انجنیئر کے گھر میں پولیس مین کیا کر رہا ہے ۔ اس نے معاملہ معلوم کرنے کے لئے پولیس مین سے بات کرنے کا سوچا اور کہا ۔ میں پولیس مین سے بات کر سکتا ہوں ؟

بچے نے سرگوشی میں کہا ۔ نہیں ۔ وہ مصروف ہیں ۔

ایم ڈی نے مزید حیران ہو کر کہا ۔ پولیس مین گھر میں کیا کر رہے ہیں ؟

بچہ ۔ وہ ابو ۔ امی اور ایک فائر مین سے باتیں کر رہے ہیں ۔

اچانک فون میں سے گڑگڑاہٹ سنائی دی ۔ ایم ڈی نے پریشان ہو کر پوچھا ۔ بیٹا یہ کیسا شور ہے ؟

بچے نے سرگوشی میں کہا ۔ ہیلی کاپٹر اترا ہے

ایم ڈی نے نہائت پریشانی میں پوچھا ۔ یہ ہیلی کاپٹر کیوں آیا ہے ؟

ایک پریشان سرگوشی میں بچے نے کہا ۔ سرچ ٹیم ہیلی کاپٹر سے اتری ہے ۔

ایم ڈی کا دل دھک دھک کرنے لگا ۔ ہمت کر کے پوچھا ۔ کیا ہوا ہے ؟ یہ سرچ ٹیم کیوں آئی ہے ؟

بچے نے اپنی ہنسی دباتے ہوئے سرگوشی میں کہا ۔ مجھے ڈھونڈ رہے ہیں ۔

انسانيت کے عَلَمبرداروں کی منافقت

کيتھولک لوگوں نے حضرت مريم کی يہ تصوير بنائی ہے ۔ اس ميں اُنہيں پورا جسم اور بال ڈھانپے ہوئے دکھايا ہے جيسا کہ عيسائی اُنہيں ديکھنا چاہتے ہيں ۔ اگر اسی طرح کا لباس مسلم خاتون پہنے تو اسے حقير سمجھا جاتا ہے ۔

عيسائی بيوائيں اکثر اپنا جسم اچھی طرح ڈھانپتی ہيں ۔ يہ ان کا خاوند سے خلوص اور قابلِ تعريف فعل سمجھا جاتا ہے ۔

جب مسلم خواتين اپنے پيدا کرنے والے سے خلوص کے اظہار ميں اپنا جسم ڈھانپتی ہيں تو اسے لائقِ مذمت کہا جاتا ہے ۔

يمِش عيسائی خواتين جسم کے علاوہ سر کے بال بھی ڈھانپتی ہيں تو اُنہيں پارسا سمجھا جاتا ہے اور لوگ ان کے عقيدہ سے متفق نہ ہوتے ہوئے بھی ان کی عزت کرتے ہيں اور وہ کسی حقوقِ خواتين تنظيم کا نشانہ بھی نہيں بنتيں ۔

يہودی مذہبی خواتين اپنے سر کے بال سکارف يا مصنوعی بالوں سے ڈھانپتی ہيں ۔ کسی ملک ميں ايسی کوئی تجويز نہيں کہ ايسی يہودی خواتين پر پابندی لگائی جائے اسلئے کہ اُن کا مذہب اُنہيں اس کی اجازت ديتا ہے ۔

جب مسلم خواتين اپنے دين کے مطابق اپنے سر کے بال ڈھانپتی ہيں تو انہيں کيوں معاشرے کی پِسی ہوئی کہا جاتا ہے اور اُن کے اس فعل کو بذريعہ قانون کيوں ممنوع قرار ديا جاتا ہے ؟

کيا جو کپڑا مسلم خواتين استعمال کرتی ہيں وہ اس کپڑے سے گھٹيا ہوتا ہے جو عيسائی يا يہودی خواتين استعمال کرتی ہيں ؟

بشکريہ : حجاب ہيپّوکريسی