Monthly Archives: November 2006

يورپ ميں مذہبی منافقت

عيسائی راہبہ [نَن] اپنا جسم حتٰہ کہ سر کے بال اور گردن بھی پوری طرح ڈھانپتی ہے کيونکہ يہ انجيل ميں لکھا ہے ۔ اُسے جرمنی کے سکولوں ميں پڑھانے کی اجازت ہے

ايک مسلم خاتون اپنا اسی طرح اپنا جسم اور سر کے بال ڈھانپتی ہے کيونکہ يہ قرآن ميں لکھا ہے ۔ اُس کا جرمنی  کے  سکولوں ميں پڑھانا ممنوع ہے ۔

ايک فرانسيی دُلہن اپنے مذہب کے مطابق سر پر دوپٹہ ليتی ہے ۔ اُسے مدبّر سمجھا جاتا ہے اور اُسے فرانس کے رجسٹری آفس ميں شادی کرانے کی اجازت ہے ۔
 
ايک مسلم عورت سر پر دوپٹہ ليتی ہے ۔ اُسے معاشرہ کی پِسی ہوئی کہا جاتا ہے اور اُسے فرانس کی رجسٹری ميں شادی کرانے کی اجازت نہيں

کمال تو يہ ہے کہ فرانس ميں مسلم لڑکيوں يا خواتين کو اپنے دين کی پيروی ميں تو سر ڈھانپنے کی اجازت نہيں ليکن فيشن کے طور پر سر ڈھانپنے کی اجازت ہے ۔

اب ناروے ميں بھی عام مقامات پر بُرقعہ يا نقاب اوڑھنے پر پابندی لگانے پر غور شروع ہو گيا ہے ۔ اگر مجوّزہ قانون منظور ہو گيا تو پردہ پر پہلی سرکاری پابندی ہو گی ۔

بشکريہ : حجاب ہيپّوکريسی

ننھے پھولوں سے متأثر ہو کر

ننھے بچے ننھے پھولوں سے بھی زيادہ خوش کُن اور نازک ہوتے ہيں ۔ ميری پوتی مِشَيل ماشاء اللہ سوا دو سال کی ہوگئی ہے ۔ اس عمر ميں بچے بڑی مزيدار باتيں اور حرکتيں کرتے ہيں ۔ مِشَيل کے والدين [زکريا اور عنبرين] شايد چاہتے ہيں کہ اُسے سيدھا ہی يونيورسٹی ميں داخل کرايا جائے ۔ دو سال کی عمر سے بھی پہلے مِشَيل کو وہ کچھ سيکھانا پڑھانا شروع کر ديا جو پانچ چھ سال کے بچے کو سکھايا يا پڑھايا جاتا ہے ۔ اس ميں سے ايک نظم کا واقعہ جو مِشَل کو ياد کرائی گئی

It is an egg
Bird came out of egg

چند دن بعد مِشَيل نے سوچا کوئی تجديد ہونا چاہئيے اور اس نے بنا ديا

It is an egg
Dad came out of egg

ليکن مِشَيل کے ايک ہم عمر بچے نے سوچا کہ تصديق کی جائے کہ بڑے لوگ صحيح بھی کہتے ہيں يا غلط ۔ چنانچہ اُس نے باورچی خانہ ميں جا کر انڈے توڑ توڑ کر ديکھنا شروع کيا کہ پرندہ اس ميں کہاں چھُپا ہوا ہے

جہاد کے مخالفين کيلئے

نوٹ ۔ اس نظم ميں شيخ سے مراد پڑھا لکھا آدمی ہے 

فتویٰ ہے شيخ کا يہ زمانہ قلم کا ہے

دنيا ميں اب رہی نہيں تلوار کارگر

ليکن جنابِ شيخ کو معلوم کيا نہيں؟

مسجد ميں اب وہ وعظ ہے بےسود و بےاثر

تيغ و تفنگ دستِ مُسلماں ميں ہے کہاں

ہو بھی تو دل ہيں موت کی لذّت سے بے خبر

کافر کی موت سے بھی لرزتا ہو جس کا دِل

کہتا ہے کون اسے کہ مُسلماں کی موت مر

تعليم اس کو چاہئيے ترکِ جہاد کی

دنيا کو جس کے پنجۂِ خونيں سے ہو خطر

باطل کی فال و فر کی حفاظت کے واسطے

يورپ زرہ ميں ڈوب گيا دوش تا کمر

ہم پوچھتے ہيں شيخِ کليسا نواز سے

مشرق ميں جنگ شرہے تومغرب ميں بھی ہےشر

حق سے اگر غرض ہے تو زيبا ہے کيا يہ بات

اسلام کا محاسبہ ۔ يورپ سے درگذر 

علّامہ محمد اقبال

تيز رفتار ترقی ؟ ؟ ؟

انٹرنيٹ پر سرگرداں تھا کہ ميری نظر ٹرانسپيرينسی انٹرنيشنل کی 11 اگست 2006 کو شائع ہونے والی رپورٹ پر اٹکی اور پاکستان کے متعلق دلچسپ معلومات حاصل ہوئيں ۔ 

حکومتوں کی کرپشن کا تقابلی جائزہ

بينظير کا پہلا دور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1988 سے 1990۔ ۔ ۔ 8.00  فيصد

نواز شريف کا پہلا دور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1990 سے 1993 ۔ ۔ 10.00  فيصد

بينظير کا دوسرا دور ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1993 سے 1996 ۔ ۔ 48.00  فيصد

نواز شريف کا دوسرا دور ۔ ۔ ۔  1996 سے 1999 ۔ ۔ 34.00  فيصد

پرويز مشرف کا پہلا دور ۔ ۔ ۔ 1999 سے 2002 ۔ ۔ 33.69  فيصد

پرويز مشرف کا دوسرا دور ۔ ۔ ۔ ۔ 2002 سے 2006 ۔ ۔ 67.31  فيصد 

صوبائی کرپشن کی موجودہ صورتِ حال کا تقابلی جائزہ

پنجاب ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 42.7   فيصد

سندھ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 28.7   فيصد

بلوچستان ۔ ۔  15.1  فيصد

سرحد ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 13.5  فيصد 

محکموں کا تقابلی جائزہ بالحاظ کرپشن

سب سے زيادہ کرپٹ سب سے اوپر اور سب سے کم کرپٹ سب سے نيچے

سن 2002 ميں ۔ ۔ سن 2006 ميں

پوليس  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پوليس 

پاور  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ پاور

ٹيکسيشن  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ عدالتی نظام

عدالتی نظام  ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ لينڈ

کسٹم  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ٹيکسيشن

محکمہ صحت ۔ ۔ ۔ ۔ کسٹم

لينڈ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ محکمہ صحت

محکمہ تعليم ۔ ۔ ۔ محکمہ تعليم

ريلوے  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ريلوے

بينک  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  بينک 

اداروں کی کرپشن کا تخمينہ

جو بالکل کرپٹ نہيں اُس کے نمبر صفر ۔ انتہائی کرپٹ کے 4 نمبر 

ادارہ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  کرپشن کے نمبر

سياسی جماعتيں ۔ ۔ ۔  ۔ 3.0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 75.0 فيصد

سينٹ اور اسمبلياں ۔ ۔ ۔ 2.7 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 67.5 فيصد

پوليس ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2.6 ۔ ۔۔ ۔ ۔ 65.0 فيصد

عدالتی نظام ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2.5 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 62.5 فيصد

نجی تجارتی ادارے۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2.4 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 60.0 فيصد

ٹيکس ريوينيو ۔ ۔ ۔۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2.4 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 60.0 فيصد

کسٹم ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ 2.3 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  57.5 فيصد

ذرائع ابلاغ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 2.2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 55.0 فيصد

ميڈيکل سروسز ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ 2.2 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 55.0 فيصد

يوٹيليٹيز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ 2.0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 50.0 فيصد

تعليمی ادارے ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔ 2.0 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 50.0 فيصد

فوج ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1.9 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 47.5 فيصد

رجسٹری و پرمٹ سروسز ۔ 1.9 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 47.5 فيصد

اين جی اوز ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔  ۔ ۔ ۔ ۔  1.8 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 45.0 فيصد

مذہبی ادارے  ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 1.6 ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ 40.0 فيصد  

نوٹ ۔ مذہبی ادارے کا مطلب يہاں متحدہ مجلسِ عمل يا ايم ايم اے نہيں ہے  

تصحيح ۔ نظم ۔ روزے کی برکتيں

ميں نے 2 نومبر کو محمد رفيع کی گائی ہوئی يہ نظم تحرير کی تھی اورتصحيح کی درخواست بھی کی تھی مگر کسی نے ميری مدد نہ کی ۔ دراصل آجکل لوگ پاپ موسيقی ہی کو سب کچھ سمجھتے ہيں جس کی انگريزی کی طرح کوئی کَل سيدھی نہيں ۔ ميری بيٹی اپنے بھائی کو ساتھ ليکر گئی اور اسلام آباد کی دکانوں سے ايک سی ڈی ڈھونڈ لائی جس ميں يہ نظم بھی تھی ۔ چنانچہ معلوم ہوا کہ مندرجہ ذيل اشعار ميں بھول گيا تھا ۔ ويسے اب 2 نونبر والی نظم ٹھيک کر دی ہے اصل مزا اُسے پڑھنے ہی ميں آئے گا

جس وقت ماں نے ديکھا بيٹے کا غم ميں حال
سمجھايا اُس کو اور کہا سُن اے ميرے لال
روزہ نہيں ہے فرض ابھی تجھ پہ غم نہ کر
دل کانپتا ہے ميرا تو آنکھوں کو نم نہ کر
لڑکا يہ بولا ماں سے نہيں مجھ سے کچھ نہاں
ميں نے سنا ہے بارہا رمضان کا بياں
قرآن اس مہينے ميں نازل ہوا ہے ماں
رمضان برکتوں کا مہينہ ہے بے گماں
جنّت ميں گھر ملے گا ہر اک روزہ دار کو
پائے گا دل ميں جلوۂِ پروردگار کو
القصہ جب رات ہوئی وہ نہ سو سکا
دل ميں تھا ايسا شوق کہ وہ جاگتا رہا
سحری کے وقت سحری کی اور روزہ رکھ ليا
خوش تھا کہ آج پورا ہوا دل کا مُدعا
سمجھايا ماں نے باپ نے لاکھوں کئے جتن
باز اپنے شوق سے مگر آيا نہ گُلبدن
ہر سمت جب پھيل گيا نُورِ آفتاب
ماں بيٹے سے يہ بولی کہ اب کھا لے تو شتاب
وہ بولا روزہ ٹوٹے گا ہو گا مجھے عذاب
ماں بولی تيرے بدلے ميں دوں گی وہاں جواب
کھانا تُو کھا لے ديکھ تو کيا ہو گيا ہے حال
بارہ بجے ہيں اور تُو بھوکا ہے ميرے لال
اس درجہ اُس کے سينے ميں روزے کا شوق تھا
ماں نے ہزاروں مِنتيں کيں کچھ نہ ہو سکا
بے تاب اپنی ماں کو ديکھا تو بول اُٹھا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔ ۔
سوکھی زبان طاری ہوئی اُس پہ بيہُشی
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
ہر سُو اذاں کی ہوئی اتنے ميں اک پُکار
۔ ۔ ۔ ۔
پھر بارگاہِ حق ميں جھُکے ہو کے بے قرار
فارغ ہوئے نماز سے تھے دونوں اشکبار
ماں کی زبان پر تھی صدا شور و شَين کی
اور سامنے تھی لاش رکھی نورِعين کی
دونوں تھے اپنے بيٹے کے ماتم ميں مبتلا
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
۔ ۔ ۔ ۔ ۔
بولا فقير اس پہ نہ کر رنج تُو ذرا
اللہ ہے کارساز دے گا اُسے جلا
بچے کی لاش مجھ کو بھی تو اک نظر دکھا

کيا يہی جمہوريت اور مساوات ہے ؟

حکمرانوں نے پاکستان کو تڑياں دينا شروع کيں مگر دنيا خاموش رہی ۔ جب پاکستان نے ايٹم بم کے تجربہ کا اعلان کيا تو اتنا شور اُٹھا کہ جيسے پاکستان کے دھماکہ کرنے سے پوری دنيا تباہ ہو جائے گی ۔ امريکہ اور برطانيہ مختلف قسم کی دھمکياں دينے لگے ۔ پاکستان نے حفاظتی يقين دہانی چاہی اور نہ ملنے پر ايٹمی تجربہ کر ليا ۔ پھر کيا تھا پاکستان پر ہر قسم کی پابندياں لگا دی گئيں جيسا کہ امريکہ روس برطانيہ فرانس چين اسرائيل اور بھارت کے پاس ايٹم بم نہيں پھولوں کی ٹوکرياں ہيں يا پھر پاکستان کا بم ان سب کی اکٹھی طاقت سے بھی زيادہ خطرناک ہے

اب کوريا نے ايٹم بم کا تجربہ کيا ہے تو پھر مغرب سے شور اُٹھا ہے ۔ کسی نے اسرائيل سے پوچھنا تو کُجا کبھی اُس کا ذکر بھی نہيں کيا کہ اس کے پاس غير اعلانيہ طور پر دو سو ايٹم بم موجود ہيں


ملاحظہ ہو ايٹم بموں کی ايک محتاط فہرست

امريکہ ۔ 5000 سٹريٹيجک وار ہيڈز ۔ 3000 آپريشنل ٹيکٹيکل وار ہيڈز ۔ 1000ريزرو ٹيکٹيکل وار ہيڈز
روس ۔ 5000 سٹريٹيجک وار ہيڈز ۔ 3500 آپريشنل ٹيکٹيکل وار ہيڈز ۔11000 سٹريٹيجک اور ريزرو ٹيکٹيکل وار ہيڈز
فرانس ۔ 350 سٹريٹيجک وار ہيڈز
چين ۔ 250 سٹريٹيجک وار ہيڈز اور 150ٹيکٹيکل وار ہيڈز
برطانيہ ۔ 200 سٹريٹيجک وار ہيڈز
اسرائيل ۔ 200 سٹريٹيجک وار ہيڈز
بھارت ۔ 45 اور 95 کے درميان سٹريٹيجک وار ہيڈز
پاکستان ۔ 30 اور 50 کے درميان سٹريٹيجک وار ہيڈز

کيا اس طرح انصاف مل سکتا ہے ؟

سرحد پولیس نے جمعہ کو سپریم کورٹ کے حکم کے مطابق ایبٹ آباد کے مدرسہ نما نجی عقوبت خانے کے بارے میں اپنی رپورٹ چیف جسٹس چودھری افتخار محمد چودھری کو پیش کردی ہے۔ ایبٹ آباد پولیس نے گزشتہ ماہ ایک نجی جیل سے سات برطانوی شہریوں سمیت ایک سو بارہ قیدی برآمد کیئے تھے۔ اس نجی جیل کو گزشتہ پندرہ برس سے مولانا الیاس قادری نامی ایک شخص چلا رہا تھا ایبٹ آباد پولیس کے اعلی اہلکار نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا ہے کہ سپریم کورٹ کو پیش کی جانے والی رپورٹ میں مقدمے کی ایف آئی آر میں درج حقائق کی تصدیق کرتے ہوئے مولانا الیاس قادری اور اُس کے چھ ساتھیوں کو ایک سو بارہ افراد کو غیر قانونی طور پر حبس بے جا میں رکھنے اور اُن سے غیر انسانی سلوک کرنے نیز شدید جسمانی تشدد کرنے کا مرتکب ٹھہرایا ہے۔ تاہم پولیس کی رپورٹ کا اہم ترین حصہ ایڈیشنل سیشن جج ہری پور، یوسف خان خٹک کے کردار کے بارے میں ہے۔ عقوبت خانے سے رہا ہونے والے ٹیکسلا کے رہائشی مجیب کے والد ولی محمد کے حوالے سے کہا گیا ہے کہ ایڈیشنل سیشن جج یوسف خٹک خان نے فروری 2006 میں مولانا الیاس قادری سے تین لاکھ روپیہ رشوت لے کر مدرسے میں پولیس مداخلت کے خلاف حکم امتناعی جاری کیا تھا۔ عقوبت خانے سے رہا ہونے والے متعدد افراد کا کہنا ہے کہ مذکورہ جج مولوی الیاس قادری سے ہر مہینے پچاس ہزار روپیہ بھتہ بھی وصول کرتے تھے۔

سرحد پولیس نے اپنی رپورٹ میں بیان کیا ہے کہ چھ اکتوبر کو مدرسے سے بازیاب ہونے والے 112 افراد کو جوڈیشل مجسٹریٹ ہری پور حنا خان کی عدالت میں پیش کیا گیا تو ایڈیشنل سیشن جج یوسف خان خٹک نے نہ صرف یہ کہ جوڈیشل مجسٹریٹ کو دفعہ 164 کے تحت بازیافتہ افراد کے بیانات ریکارڈ کرنے سے روک دیا بلکہ پولیس کو حکم دیا کہ الیاس قادری کو رہا کر کے بازیافتہ افراد کو دوبارہ ادارہ انسداد منشیات میں پہنچا دیا جائے۔

اس پر جوڈیشل مجسٹریٹ حنا خان نے تحریری طو ر پر بازیافتہ افراد کے بیانات درج کرنے سے معذوری ظاہر کی۔ چنانچہ پولیس ان افراد کو ہری پور کے دوسرے ایڈیشنل سیشن جج حافظ نسیم اکبر کی عدالت میں لے گئی جنہوں نے باز یاب ہونے والے افراد کے بیانات قلم بند کرکے ان کی رہائی کا حکم دیا۔ انہوں نے مولانا الیاس قادری اور ان کے ساتھیوں کی درخواست ضمانت بھی مسترد کر دی۔ جن قیدیوں نے ملزمان پر جنسی زیادتی کا الزام عائد کیا تھا، ایڈیشنل سیشن جج حافظ نسیم اکبر نے انہیں ڈسٹرکٹ ہیڈ کوارٹر ہسپتال ہری پور میں طبی معائنے کے لیے لے جانے کی ہدایت بھی کی۔

مبینہ طور پر تحصیل ہری پور کے تھانہ کھلا بٹ کے علاقے میں مولانا الیاس قادری نامی ایک شخص گزشتہ پندرہ برس سے یہ مدرسہ نما نجی جیل چلا رہے تھے۔ مولانا الیاس قادری اپنے چھ ساتھیوں سمیت پولیس کی تحویل میں ہیں۔ اٹھائیس اکتوبر کو سیشن جج ہری پور نے ملزمان کی درخواست ضمانت مسترد کردی تھی۔

ہری پور میں انسانی حقوق کے کارکن کے مطابق تین اور چار اکتوبر کی درمیانی شب ہری پور، پولیس کے ڈی ایس پی عبدالمجید آفریدی چند سپاہیوں کے ساتھ جیب پر گشت کررہے تھے۔ پولیس پارٹی نے تربیلا جھیل کے کنارے سڑک پر دومشتبہ افراد کو روک کر پوچھ گچھ کرنا چاہی تو معلوم ہوا کہ دونوں افراد، ماجد محمود اور شاہد وسیم کے پاؤں زنجیروں میں جکڑے ہوۓ تھے۔ انہوں نے بتایا کہ وہ مولانا الیاس قادری کے ’ادارہ انسداد منشیات‘ سے فرار ہوئے تھے۔ عبدالحمید آفریدی انہیں جیپ میں بٹھا کر تھانے لے آئے۔ شدید تشدد کا شکار رہنے والے دونوں افراد الیاس قادری کے خوف سے کچھ بتانے سے گریزاں تھے۔ انہیں تحفظ کی یقین دہانی کرانے کے بعد ان کے نام سے الیاس قادری اور دیگر ملزمان کے خلاف ایف آئی آر درج کی گئی۔ پولیس کے اعلیٰ ضلعی حکام کو آگاہ کیا گیا اور تحصیل ناظم کی موجودگی میں علی الصبح مولانا الیاس قادری کے مدرسے پر چھاپہ مارا گیا۔ اس موقع پر ساڑھے سات منٹ کی ویڈیو فلم بھی تیار کی گئی۔

اس غیرمعمولی احتیاط کی وجہ یہ تھی کہ کچھ عرصہ قبل مولانا الیاس قادری نے پولیس کی ممکنہ مداخلت سے بچنے کے لیے ایڈیشنل سیشن جج ہری پور سے حکم امتناعی حاصل کر رکھا تھا۔