شور ہر سال اُٹھتا ہے مگر ۔ ۔ ۔

سالہا سال سے ہر سال يہ شور شعبان کے آخری ہفتہ ميں نمودار ہوتا ہے ۔ عيد الفطر تک گرما گرم بحث ہوتی ہے اور عيد الفطر کے بعد ايسا ہوتا ہے کہ جیسے کچھ ہوا ہی نہيں ۔ موضوع ہوتا ہے چونکہ سائنس اب بہت ترقّی کر گئی ہے اسلئے علمِ سائنس کے ذريعہ چاند کی پہلی تاريخ کا حساب لگا کر روزہ رکھا جائے اور روئتِ ہلال کی کوئی ضرورت نہيں ۔

اس ميں کوئی شک نہيں کہ اجرامِ فلکی کی حرکات ديکھنا اب آسان ہوگيا ہے ليکن جب يہ جديد طريقے معلوم نہيں ہوئے تھے يعنی چھ سات صدياں قبل تو بھی چاند ستاروں کی حرکت کا صحيح حساب لگايا جاتا تھا ۔ اگر ايسا نہ ہوتا تو بادبانی جہاز ميں دنيا کے ايک سرے سے دوسرے سرے تک تاجر کيسے سفر کرتے تھے جن کا رہبر اجرامِ فلکی ہی ہوتے تھے ؟ صرف کولمبس کو مثال بنانا غَلَط ہے جو کہ ہندوستان جانے کيلئے نکلا اور امريکہ پہنچ گيا ۔

کہا جاتا ہے سو ڈيڑھ سو سال پہلے تک مسلمان سائنسدانوں کی بنائی ہوئی جنتری موجود تھی جس ميں چاند کی صحيح تاريخيں ہوتی تھيں اور اس ميں شاذ و نادر ہی تبديلی کی ضرورت پڑتی تھی ۔ مسئلہ دراصل يہ نہيں ہے کہ روئتِ ہلال ايک بوسيدہ يا غير سائنسی خيال ہے يا اسلام سائنسی تحقيق اور اس کے استعمال کی اجازت نہيں ديتا ۔ مسئلہ مسلمانوں کی دينی اور دنياوی علم سے دُوری ہے جس کے نتيجہ ميں لوگ گروہوں ميں بٹ کر ضدی بن گئے ہيں اور ہر گروہ اللہ اور اس کے رسول کی ہدائت کے خلاف دوسرے گروہ کی اچھائياں ديکھنے اور سيکھنے کی بجائے اس کی بُرائياں اُجاگر کرنے ميں لگا رہتا ہے جس کے نتيجہ ميں اتحاد کا فُقدان ہے ۔ ديگر اپنی گروہ بندی کی خاطر ان گروہوں نے مُختلف بدعتيں بھی اپنا لی ہيں

اس کُرّہءِ ارض کا ہر علاقہ سورج اور چاند کے ساتھ مُختلف زاويئے بناتا ہے ۔ يہ زاويئے سورج کے گرد ايک چکّر کے دوران بدلتے رہتے ہيں اور زمين کے محور کی زمين کی مُجسّم حرکت کی سطح کے ساتھ جھُکاؤ کا بھی ان زاويئوں پر زمين کے مُختلِف مقامات پر مُختلِف اوقات ميں مُختلِف اثر پڑتا ہے جو روئتِ ہلال کا قياس بذريعہ رياضی مُشکِل بنا ديتا ہے ۔

دنيا ميں اس وقت کوئی دنیا میں اس وقت کوئی مستند جنتری نہيں جو نظامِ شمسی کی سو فيصد صحيح عکاسی کرتی ہو ۔ گريگوريئن جنتری جو عام استعمال ميں ہے اس کے مطابق مہينے ہيں 11 مہينوں ميں 30 يا 31 دن ہوتے ہيں ايک ميں تين بار 28 دن اور چوتھی بار 29 دن ہوتے ہيں ۔ جغرافيہ دان جانتے ہيں کہ اس کے باوجود مزيد تصحيح کی ضرورت ہے جو آج تک نہيں کی گئی مزيد يہ مہينے بھی نظامِ شمسی کی صحيح ترجمانی نہيں کرتے ۔

اللہ سُبحانُہُ نے فرمايا ہے ۔

الْبَقَرہَ ۔ آيت 189 سورت 2
لوگ آپ سے نئے چاندوں کے بارے میں دریافت کرتے ہیں، فرما دیں: یہ لوگوں کے لئے اور ماہِ حج [کے تعیّن] کے لئے وقت کی علامتیں ہیں

سورت 6 الْأَنْعَام آیت 96
وہی صبح [کی روشنی] کو رات کا اندھیرا چاک کر کے نکالنے والاہے، اور اسی نے رات کو آرام کے لئے بنایا ہے اور سورج اور چاند کوحساب و شمار کے لئے، یہ بہت غالب بڑے علم والے [ربّ] کا مقررہ اندازہ ہے

سورت التَّوْبَہ آيت 36
بیشک اللہ کے نزدیک مہینوں کی گنتی اللہ کی کتاب میں بارہ مہینے ہے جس دن سے اس نے آسمانوں اور زمین کو پیدا فرمایا

سنّت نيا چاند ديکھنے کی تلقين کرتی ہے ۔ ترکِ سُنّت نہيں کيا جا سکتا کيونکہ اللہ تعالٰی نے رسول کی اطاعت کا حُکم ديا ہے [ميں اُن عقيدوں کی حمائت نہيں کرتا جو قرآن اور سنّت سے ماورا مختلف فرقوں نے اپنے اُوپر مسلّط کر لئے ہوئے ہيں] ۔ اجرامِ فلکی کے علم کے ماہرين بھی يہرائے رکھتے ہيں کہ کبھی ايسا ہوتا ہے کہ رياضی کے قاعدے سے تو نيا چاند طلوع ہونا چاہيئے ليکن عملی طور پر ايسا نہيں ہوتا ۔ اس کی معروف وجہ يہ ہے کہ ہلال اتنا باريک ہوتا ہے کہ وہ کسی طريقہ سے نظر نہيں آ سکتا دوسرے ايسی صورتِ حال انتہائی قليل وقت کيلئے ہوتی ہے اور ايسا سراب کے اثر سے بھی ہو سکتا ہے چنانچہ يہ روئت مشکوک ہوتی ہے ۔ ايسی صورت ميں چاند نظر نہيں آيا ہی کہا جانا چاہيئے ۔ ايسا تو کيا جا سکتا ہے کہ اجرامِ فلکی کے علم کے ذريعہ کم از کم دس سالوں کی ايک جنتری بنا لی جائے پھر اس جنتری کا جائزہ ليا جاتا رہے اور جب حقيقی صورتِ حال کی بناء پر ضرورت پڑے اس ميں ترميم کی جاتی رہے

ميں اپنی حاصل کردھ تعليم اور تجربہ کی بنياد پر وثوق کے ساتھ کہہ سکتا ہوں کہ عملی رياضی کے استعمال سے بنائے ہوئے پرزہ ميں بھی حقيقی عملی صورتِ حال کی بنياد پر ترميم کرنا پڑتی ہے ۔ دوسرے انسان کے بنائے ہوئے وقت کے پيمانے يعنی سيکنڈ ۔ منٹ ۔ گھينٹہ ۔ دن ۔ مہينہ اور سال نظامِ شمسی کے قدرتی پيمانے سے مماثلت نہيں رکھتے ۔ چنانچہ سُنّت کے علاوہ اس بنياد پر بھی صرف رمضان يا عيدين کيلئے نہيں بلکہ ہر ماہ روئتِ ہلال کا مناسب بندوبست ہونا چاہيئے اور اس کيلئے تعليم يافتہ اور تجربہ کار عُلماء اور ماہرينِ علمِ اجرامِ فلکی کی ايک مستقل کميٹی بنانا چاہيئے ۔ پہلی تاريخ اُسی دن ہو جس سے پچھلی شام چاند نظر آ جائے يا نظر آ جانا چاہيئے تھا مگر بادل دھند يا گرد کی وجہ سے نظر نہ آيا واللہ علم بالصواب

This entry was posted in خبر on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.