یادِ ماضی تلخ بھی شیِریِں بھی

ماضی کی یادوں کے متعلق ایک شاعر نے کہا “یادِ ماضی عذاب ہے یارو چھین لے کوئی حافظہ میرا ” ۔ مگر میرا خیال ہے کہ ماضی کے لمحات خواہ کتنے ہی تلخ رہے ہوں سالہا گذر جانے کے بعد جب انسان کو اُن کی یاد آتی ہے تو ایک عجیب سی مٹھاس محسوس ہوتی ہے ۔آج صبح سویرے بیٹا زکَرِیّا بہو بیٹی اور میری پیاری پوتی مشَیل اٹلانٹا روانہ ہو گئے ۔ دو ہفتے ماشا اللہ خوب رونق لگی رہی ۔ چند دن قبل ہم سب لاؤنج میں بیٹھے تھے کہ میری بیوی نے ہمیں متوجہ کیا اور سٹیریو پلیئر چلا دیا ۔ 26 سال پہلے کی میری اور میرے تینوں بچوں کی بولنے اور ہنسنے کی آوازیں ۔ بہت لطف آیا ۔ اُس وقت زکَرِیّا تقریباً ساڑھے آٹھ سال کا تھا ۔ زکَریّا تینوں میں بڑا ہے ۔ ٹیپ چلتے چلتے ایک گانا آ گیا جسے سن کر سوچ کی اُڑان مجھے ماضی بعید میں تقریباً چھیالیس سال پیچھے لے گئی جب میں نے پہلی بار یہ گانا گایا تھا ۔

میں ابھی انجنیئرنگ کالج میں داخل نہیں ہوا تھا کہ میرے والد صاحب بیمار ہو گئے ۔ راولپنڈی میں سال بھر علاج سے کوئی فائدہ نہ ہوا ۔ بیماری کی تشخیص نہیں ہو رہی تھی ۔ لاہور میں ڈاکٹر توفیق جنہیں فادر آف میڈیسن کہا جاتا تھا اُن سے علاج کے لئے والد صاحب کو گنگا رام ہسپتال لاہور میں داخل کرا دیا ۔ چھ ماہ وہاں رہ کر تشخیص ہو گئی تو گھر آ گئے ۔ مزید دو سال بیمار رہنے کے بعد وہ ٹھیک ہوئے ۔ اِن ساڑھے تین سالوں میں والد صاحب کے بزنس مینجر نے منافع کو نقصان میں بدل دیا ۔ گرمیوں کی چھٹیاں ختم ہونے پر میں کالج روانہ ہونے لگا تو والد صاحب کے پاس میرے اخراجات کے لئے رقم نہ تھی ۔ میری بڑی بہن جو ڈاکٹر ہیں اوراُن کی شادی ہو چکی تھی نے مجھے 9 ماہ کا خرچ 900 روپیہ دیا ۔ میرا دل جیسے بیٹھ گیا مگر اس وقت پڑھائی کو خیرباد کہنا خاندان کے مفاد میں نہ تھا۔ میں بوجھل دِل لئے لاہور پہنچ گیا۔ کلاسز شروع ہونے میں چند دن باقی تھے اسی دن کئی لڑکے ہوسٹل میں پہنچ گئے ۔ کمرہ الاٹ کروا کر صفائی کروائی ۔ میس ابھی چالُو نہ ہوا تھا ۔ گڑھی شاہو جا کر کھانا کھایا اور سو گئے ۔ دوسرے دن پانچ سات ہم جماعت اکٹھے بیٹھے تھے ۔ وقت گذارنے کے لئے تجویز ہوا کہ سب باری باری گانا گائیں ۔ میری باری آئی ۔ میرا دل افسردا تھا اور بولنے کو بھی نہیں چاہ رہا تھا کُجا گانا ۔ میں نے کہا “مجھے گانا نہیں آتا” تو ایک طوفان مچ گیا “جھُوٹ جھُوٹ ۔ ہر پکنک پر تم نے گایا ۔ راوی میں کشتی رانی کرتے تم نے گایا ” ۔ جان کی خلاصی نہ ہو رہی تھی ۔ اچانک مجھے ایک حسبِ حال گانا یاد آیا اور میں نے نظریں نیچی کر کے گانا شروع کیا ۔ گا چُکا تو کچھ ایسا احساس تھا کہ کہیں میری چوری تو نہیں پکڑی گئی ۔ اچانک ایک ہم جماعت مجھ سے لپٹ گیا اور کہنے لگا “اجمل ۔ سچ بتاؤ کیا بات ہے ؟ تم نے تو ہمیشہ ہمیں ہنسایا ہے آج رُلا کیوں دیا ؟ “۔ میں نے بڑی مشکل سے نظریں اُٹھا کر دیکھا تو دو لڑکے اپنی آنکھیں پونچھ رہے تھے ۔ کسی نے سچ کہا تھا ۔ “جب دِل کو ٹھیس لگتی ہے تو موسیقی کے تار خود بخود بجنے لگتے ہیں”۔

میرے ساتھیوں نے اُس وقت میری بہت حوصلہ افزائی کی اور سارا سال میرا بہت خیال رکھا ۔ آج اُس وقت کی یاد مجھے افسردہ کم اور روح پرور زیادہ محسوس ہوئی ۔

گانا یہ تھا ۔
رات بھر کا ہے مہماں اندھیرا
کس کے روکے رُکا ہے سویرا
رات جتنی بھی سنگین ہو گی
صبح اتنی ہی رنگین ہو گی
غم نہ کر ۔ گر ہے بادل گھنیرا
کس کے روکے رُکا ہے سویرا
یونہی دنیا میں آ کر نہ جانا
صرف آنسو بہا کر نہ جانا
مسکراہٹ پہ بھی حق ہے تیرا
کس کے روکے رُکا ہے سویرا
آ۔ مل کے کوئی تدبیر سوچیں
سُکھ کے سپنوں کی تعبیر سوچیں
جو تیرا ہے وہی غم ہے میرا
کس کے روکے رُکا ہے سویرا
لب پہ شکوہ نہ لا ۔ اشک پی لے
جس طرح بھی ہو کچھ دیر جی لے
اب تو اُٹھنے کو ہے غم کا ڈیرہ
کس کے روکے رُکا ہے سویرا

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

3 thoughts on “یادِ ماضی تلخ بھی شیِریِں بھی

  1. SHUAIB

    واقع اچھا گانا ہے ۔ آپ نے کونسے سر میں گایا ہوگا کاش ہم بھی آپکی آواز میں سن لیتے

  2. WiseSabre

    وہ علامہ کہہ گئے ہیں کہ

    دل سے جو بات نکلتی ہے اثر رکھتی ہےپر نہیں، طاقتِ پرواز مگر رکھتی ہے

  3. اجمل

    شعیب صاحب
    سُر کی تیاری کے لئے فراغتِ وقت ضروری ہے ۔ میں تو اس وقت عجیب سی ذہنی کشمکش میں تھا ۔ دوسری وجہ یہ ہے کہ اس واقع کو چھیالیس سال گذر چکے ہیں ۔ میں تو بھول چکا تھا میری بیگم نے کیسٹ لگا کر ےاد کرا دیا۔

    ثاقب سعود صاحب
    علّامہ بہت بڑے عملی مفکّر تھے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.