Monthly Archives: November 2005

محبت کی کنجی

گھر میں پیار و محبت کی فضا زندگی کی بنیاد ہےاپنے عزیزوں سے اختلاف کی صورت میں
صرف حال کے معاملہ پر ہی نظر رکھیئے
ماضی کی رنجشوں کو بیچ میں نہ لائیے

یاد رکھیئے کہ بہترین تعلقات وہ ہوتے ہیں
جن میں آپس میں ایک دوسرے سے محبت
ایک دوسرے کی ضرورت سے بڑھ جائے

یا اللہ تیرے یہ بندے کدھر جائیں ؟

ہمارے ملک میں صرف ایک خود ساختہ زمینی خدا کے نہ صرف اصلی بلکہ مفروضہ تحفظ کے لئے لاکھوں پاکستانی جانوں کو مصیبت میں ڈالا جا سکتا ہے ۔ یہ خود ساختہ خدا ہی پاکستان ہے باقی ہم لوگوں کی قدر اس چارے کے برابر بھی نہیں جو مویشیوں کو ڈالا جاتا ہے ۔ چار پانچ روز قبل اچانک اس خود ساختہ خدا کو احساس ہوا کہ اس کی جان کو خطرہ ہو سکتا ہے کیونکہ 30000 آدمی پہاڑوں سے اتر کر اسلام آباد کی فضا میں اپنی گھٹیا سانسیں چھوڑ رہے ہیں ۔ اگر زلزلہ آیا ہے تو ان کے گھروں میں آتا رہے مگر میری فضا گندی کرنے کی انہیں اجازت نہیں دے سکتا ۔ میں نے ڈالر اکٹھے کرنے تھے کر لئے میرے ثناخوانوں اور حواریوں نے عمدہ یورپی کمبل اور پکنکیں منانے کے لئے خیمے لینا تھے لے لئے چنانچہ حکم دے دیا گیا کہ نکالو ان کو یہاں سے اور 13 نومبر کو 1000 بے خانماں متاءثرین کو نکال دیا گیا ۔ چند دنوں میں اسلام آباد خالی کرا لیا جاۓ گا ۔ جن مصیبت زدہ زلزلہ کے متاءثرین کا کھانے پینے اور رہائش کا 90 فیصد خرچ راولپنڈی اور اسلام آباد کے عوام اور رفاہی ادارے اٹھا رہے تھے اور دن رات ان کی خدمت میں لگے تھے ۔ برفانی پہاڑوں میں ان بے خانماں لوگوں کا کیا ہو گا اس کی خود ساختہ خدا کو کیا پروا ۔ اقوام متحدہ والے اگر کہتے ہیں کہ سخت سردی سے بے شمار متاءثرین مر جائیں گے تو کہتے رہیں ۔ سوا لاکھ سے زیادہ مر چکے مزید مر جائیں تو پرکیپیٹا انکم (per capita income)میں اضافہ ہو جائے گا اور آقا (امریکہ) سے شاباش ملے گی ۔ کمال تو یہ ہے ان کو واپس پہنچانے کے لئے متاءثرین کا خرچ اٹھانے والے مقامی رفاہی اداروں کو ہی حکم دیا گیا ہے تاکہ ٹرانسپورٹ پر حکومت کا خرچہ نہ ہو ۔

لاٹھی کی سرکار

نہ ہو کبھی کہیں برباد ۔گھر کسی کا ہو
نہ بے خطا ہو سر دار ۔ سر کسی کا ہو
تڑپ کے جاں نہ دے بے کسی کے عالم میں
جوان لاڈلا ۔ لخت جگر کسی کا ہو
اداس لوگوں پہ اب لاٹھیاں نہ برساؤ
کہ مشتعل نہ دل نوحہ گر کسی کا ہو
یہ سادہ لوح ۔ پہاڑوں کے غمزدہ خوددار
نہ زندگی میں زیاں اس قدر کسی کا ہو
تمام اعضاء سلامت ہیں جن کے وہ سوچیں
نہ ضائع اس طرح دست ہنر کسی کا ہو
ریاض الرحمان ساغر

اب پڑھیئے کچھ حالات حاضرہ اور خبروں کے بارے میں
1 ۔ ” اعزاز” اور احساس محرومی
2 ۔ حکومت کس دردمندی سے زلزلہ زدگان کے دامن تارتار کی بخیہ گری کر رہی ہے

کہا ” کوچ کرو” اور کوچ کر گئے

حسن اتفاق ۔ ایک غزل بہت معروف ہوئی وہ لکھنے والے کی مشہور غزلوں میں سے آخری بن گئی اور گانے والے کی مشہور غزلوں میں سے بھی آخری ثابت ہوئی ۔ ابن انشاء کی لکھی اور استاد امانت علی کی گائی ہوئی ۔

انشاء جی اٹھو اب کوچ کرو
اس شہر میں جی کو لگانا کیا
وحشی کوسکوں سے کیا مطلب
جوگی کا نگر میں ٹھکانہ کیا
اس دل کے دریدہ دامن میں
دیکھو توسہی سوچو تو سہی
جس جھولی میں سو چھید ہوئے
اس جھولی کو پھیلانا کیا
شب بیتی چاند بھی ڈوب چلا
زنجیر پڑی دروازے میں
کیوں دیر گئے گھر آئے ہو
سجنی سے کرو گے بہانہ کیا
جب شہر کے لوگ نہ رستہ دیں
کیوں بن میں نہ جا بسیرا ہم کریں
دیوانوں کی سی نہ بات کرے
تو اور کرے دیوانہ کیا

تبصرہ کا معتدل نظام اور معذرت

بلاگر ڈاٹ کام نے نیا ” تبصرہ کا معتدل نظام” متعارف کرایا تھا جسے میں نے چار یوم قبل نصب کیا ۔ میں پیر کو الدصبح ایک رشتہ دار کی وفات کے سلسلہ میں لاہور چلا گیا ۔ چنانچہ اس دوران جو تبصرہ ہوا وہ منگل کی شام تک شائع نہ ہو سکا ۔ اس کے لئے میں معذرت خواہ ہوں ۔

عید الفطر کیا لائی ہے

اللہ یہ عید الفطر سب مسلمانوں کے لئے مبارک کرے بالخصوص زلزلہ کے متاءثرین پر اپنی خاص رحمتیں نازل کرے ۔

یہ عید بھی کیا عید ہے نہ نئے کپڑے بنانے کا خیال آیا نہ ہلال نو دیکھنے کا ۔ ایک عید میں نے 1947 میں دیکھی تھی ۔ والدین سے دور لواحقین سے بچھڑے ہوۓ کسی کا پتہ نہ تھا کہ وہ زندہ بھی ہیں اور ہر وقت یہی خدشہ کہ شائد اگلے ہی لمحے راشٹریہ سیوک سنگ ۔ ہندو مہاسبھہ یا اکالی دل کے مسلحہ دستے حملہ آور ہوں گے اور ہمیں کاٹ کے رکھ دیں گے ۔ ڈیڑھ ماہ اسی طرح گذرا تھا مگر ایک لمحہ کے لئے آنکھیں نم نہ ہوئی تھیں سواۓ اس دن کے جب ایک جوان نے آ کر بتایا تھا کہ سب مر گئے ۔ اس سال یہ کیسی عید آئی ہے کہ آنکھوں کی برسات لگی ہے اور دل ہے کہ کچلا چلا جاتا ہے ۔ مگر کیا کروں بوڑھوں کو دیکھوں یا جوانوں کو یا بچوں کو ہر طرف ایک ہی نقشہ ہے ۔ کسی کے سر پر پٹی بندھی ہے تو کسی کی ٹانگ پر پلستر چڑھا ہے ۔ کسی کی ٹانگ کاٹی جا چکی ہے اور کسی کا بازو ۔ معصوم بچوں کا بھی یہی حال ہے ۔ کئی بچے 26 دن گذرنے کے بعد بھی سہمے ہوۓ ہیں اور پھٹی پھٹی آنکھوں سے دیکھ رہے ہیں ۔ کئی معصوم بچے ہیں جن کے نہ والدین کا پتہ ہے نہ کسی عزیز رشتہ دار کا ۔

لوگ تحفے دیتے ہیں تو لمحہ بھر کے لئے اپنی تکلیف بھول کر پھول سے بچے مسکرا دیتے ہيں ۔ بے سر و سامانی کی حالت میں بھی نہ صرف اللہ بلکہ لوگوں کا بھی شکریہ ادا کرتے ہیں ۔ واپسی اختیار کرتے وقت جب کوئی کہہ اٹھتا ہے کل بھی آئیں گے نا ۔ ذرا جلدی آنا ۔ تو پھر قدم رک جاتے ہیں اور دل واپس آنے کی اجازت نہیں دیتا ۔ آج کچھ بچوں نے میرے بیٹے کے ساتھ کرکٹ کھیلی اور بہت خوش ہوۓ ۔ میرا بیٹا اور بہو شروع دن سے ہی روزانہ کسی کیمپ میں چار پانچ گھنٹے لگا کر آتے ہیں ۔پرسوں رات میری بیٹی پہنچ گئی تھی وہ بھی شامل ہو گئی ۔ آج تو تینوں قبل دوپہر کے گئے ہوۓ افطاری کے وقت پنچے اور افطاری کر کے پھر چلے گئے کہ اب دوسرے کیمپ تحفے تقسیم کرنے ہيں ۔ رات کے گیارہ بج گئے ہیں اور ابھی تک واپس نہیں لوٹے ۔ میں ساتھ نہ گیا – بازار سے اشیاء لا کر ملازمین کی مدد سے ایک سو بچوں کے لئے تحفوں کے پیکٹ تیار کئے ۔ میرے دونوں بھائی بھی آج یہی کام کرتے رہے ۔ بہت سے دیگر لوگ بھی آجکل یہی کر رہے ہیں ۔ اللہ کا شکر ہے کہ سوئی ہوئی قوم جاگ اٹھی ۔

کسی کے پاس زمین پر بچھانے کے لئے کوئی دری بھی نہیں ۔ وہ گدلی اور ٹھنڈی زمین پر ہی بٹھتے اور لیٹتے ہیں ۔ صاحب دل لوگ آہستہ آہستہ ان کی ضروریات پوری کر رہے ہیں ۔ سی ڈی اے کے ملازمین ان کی حفاظت اور دیگر معاملات سنبھالے ہوۓ ہیں ۔

کمال تو یہ ہے کہ کیمپ جا کے اگر پوچھیں کہ آپ کو کس چیز کی ضرورت ہے تو جواب ملتا ہے کہ اللہ کا شکر ہے ہمیں کسی چیز کی ضرورت نہیں ۔ پھر وہاں جانے والے واقف کار لوگوں سے مشورہ کیا جاتا ہے کہ جو وہ دیں گے اس کی بجاۓ کچھ اور دیا جاۓ ۔

اعجاز آسی نے کیا کیا ۔ ایک خاکہ

گذری رات 10 بجے میرے موبائل کی گھنٹی بجی ۔ اعجاز آسی صاحب لائین پر تھے جن کی آواز سننے کا پچھلے 5 دن سے شدید انتظار تھا ۔ انہوں نے سرکاری اداروں کی طرف سے رہبری مفقود ہونے کا ذکر کرتے ہوۓ بتایا کہ متاءثرہ علاقہ میں رضاکار اللہ پر بھروسہ کرتے ہوۓ سارے فیصلے اپنی دانش کے مطابق کر رہے ہیں کہ کہاں جانا ہے اور کیا کرنا ہے ۔ رضاکاروں کی رہبری اور مدد صرف مجاہدین کی تنظیمیں کر رہی ہیں جن میں سے کئی پر ماضی میں ہماری حکومت پابندی لگا چکی ہوئی ہے ۔ وقت ملنے پر اعجاز آسی صاحب اپنے تاءثرات قلمبند کریں گے ۔ فی الحال ان کی انگریزی میں تحریر کرہ ای میل کا ترجمہ حاضر ہے ۔بدھ ۔ 2 نومبر 2005 رات 9 بجکر 7 منٹ 38 سیکنڈ
منجانب : اعجاز آسی

الحمدللہ ۔ آزاد کشمیر کی لائن آف کنٹرول تک کی وادیوں میں چار دن کی ایک جسمانی اور روحانی حیات افروز آزمائش کے بعد اپنے آبائی گھر شہر میں پہنچ گیا ہوں ۔

میں روشن خیال 9 مرد ڈاکٹروں اور 2 خواتین ڈاکٹروں جن میں سے ایک فوج کے سابق کرنل تھے ایک خاتون رضاکار (پیرامیڈک) کے ساتھ تھا ۔ ان نفیس صاحب ایمان خواتین و حضرات کے ساتھ میں 7 گھنٹے سلسلہء کوہ پر سفر کرتے ہوۓ تلگراں اور سربتاں کے دیہات میں پہنچا ۔ زلزلہ جس نے ہماری زندگیوں کو جھنجوڑ کے رکھ دیا کے 3 ہفتے بعد وہاں ہم پہلی میڈیکل اور زمینی امدادی ٹیم تھے ۔ تفصیلات میں انشاء اللہ جس قدر جلد ممکن ہو سکا لکھوں گا ۔ میں اللہ قادر مطلق کا احسانمند ہوں جس نے ہمیں ان پہاڑوں پر چڑھنے کا حوصلہ اور طاقت عطا کی جنہیں سر کرنا ناقابل تسخیر خیال کیا جاتا تھا ۔ بغیر اللہ کی دستگیری کے ان تین نفیس خواتین نے سینکڑوں مایوس گھرانوں کو امید ۔ منزلت اور محبت کا پیغام نہ دیا ہوتا ۔

میں اپنے میزبانوں لشکر طیّبہ کے اراکین (ایک ممنوعہ تنظیم جس کا نیا نام جماعت الدعوی ہے) کا ممنون ہوں کہ ان کی رہبری اور مدد کے بغیر ہم اس جگہ ایک دن میں نہیں پہنچ سکتے تھے اور ہم نے یقین نہ کیا ہوتا کہ انسانی روح اللہ کی عزمت کو محفوظ رکھنے کے لئے کتنا کچھ سہار سکتی ہے ۔

میں اپنی ٹیم کی خواتین ارکان جو نسوانی صبر ۔ قوت اور دردمندی کی علامت تھیں کے ساتھ چلنے پر اپنے آپ کو مقدم محسوس کرتا ہوں ۔ میں اللہ کا شکرگزار ہوں اور فخر محسوس کرتا ہوں کہ میں ایک ایسی ٹیم کا رکن رہا جس کے ارکان نے ذاتی تکالیف اور مسائل کو بالا طاق رکھ کر 11 گھنٹوں میں 800 مریضوں کی دیکھ بھال کی جن میں سے بہت سے ایسے تھے کہ اگر یہ علاج میسر نہ آتا تو زندگی کی کشمکش میں مبتلاء ہو جاتے ۔

مجھے امید ہے کہ میری ٹیم کے ارکان (سواۓ کرنل طارق کے) اپنے گھروں کو پہنچ گئے ہوں گے لیکن ہم میں سے کسی کی زندگی پہلے والی نہیں رہے گی جیسا کہ ہم نے سیکھا ہے کہ ہر دن اپنے سینے میں ایک ابدیت لئے آتا ہے جو دوسری کئی زندگیوں کو شکل دیتا ہے ۔

آئیے ہم عید پر صدق دل سے دعا کریں ان لوگوں کے لئے جو اس زلزلہ میں مر گئے اور ان کے لئے جو تاحال بے گھر ۔ بغیر خوراک کے ہیں ۔ زخمیوں ۔ یتیموں اور بیواؤں کے لئے ۔ مزید اللہ سے دعا کریں کہ متاءثرین کو اپنی محرومیوں سے مقابلہ کے لئے قوت اور حوصلہ عطا کرے اور اس زلزلہ سے جو سبق حاصل ہوا ہے اس کا شعور عطا کرے ۔ آئیے اس نور کی خواہش کریں جو باہمی محبت اور امن کا حامل ہوتا ہے اور اندھیروں کر ختم کر کے دلوں کو سکون بخشتا ہے ۔ آمین ۔