Monthly Archives: November 2005

وہ پندرہ فٹ گہرے پانی میں کود گیا

پیش لفظ:- واقعہ حقیقی ہے لیکن نام فرضی ہیں ۔

چالیس سال پہلے کا واقعہ ہے۔ جمیل (فرضی نام) کو اس ادارے کی ملازمت شروع کئے سوا دو سال ہو چکے تھے۔ وہ آفیسرز کلب میں سکواش کھیلنے جاتا تھا ۔ آفیسرز کلب میں ایک سویمنگ پول تھا ۔ نزدیکی کنارے پر پانی 2 فٹ گہرا تھا اور دور والے کنارے کی طرف گہرا ہوتا جاتا تھا حتی کہ آخر میں لمبائی کے 20 فٹ حصّہ میں پانی 15 فٹ گہرا تھا۔ وہاں سپرنگ بورڈ لگے ہوئے تھے ۔ مئی کا مہینہ تھا۔ ایک سینئر آفیسر نے جمیل سے کہا ” آپ سویمنگ پول پر نظر نہیں آئے”۔ جمیل نے بتایا کہ اسے تیرنا نہیں آتا۔ آفیسر نے مسکرا کر کہا “پانی میں جاؤ گے تو تیرنا سیکھو گے نا”۔ دوسرے دن جمیل سویمنگ پول پر پہنچ گیا۔ وہ آفیسر بھی آئے اور انہوں نے دو اچھے تیراکوں طلعت اور جمشید کے ذمّہ کیا کہ وہ جمیل کو تیرنا سیکھائیں۔ محنت کر کے ایک ماہ میں جمیل اس قابل ہو گیا کہ چار ساڑھے چار فٹ گہرے پانی میں چند منٹ تیر لیتا۔ایک دن جمیل سویمنگ پول پر پہنچا تو وہاں اور ابھی کوئی بھی نہیں آیا تھا۔ شاور لے کر آیا تو دیکھا کہ ایک بارہ تیرا سالہ لڑکے نے سپرنگ بورڈ پر سے اچھل کر چھلانگ لگائی اور کوئی 12 فٹ پانی کی تہہ میں پہنچ کر ہاتھ پاؤں مار نے لگا ۔ جمیل کو احساس ہوا کہ لڑکا ڈوب جائے گا ۔ وہ بھاگتا ہوا دوسرے کنارے پر پہنچا دل میں کہا یا اللہ اسے بچا اور 15 فٹ گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی۔ اتفاق سے وہ سیدھا تہہ تک پہنچا ۔ اس نے اپنے پاؤں سے فرش کو دھکا دیا جس سے وہ تیزی سے اوپر کی طرف اٹھا۔ اوپر آتے ہوۓ اس نے لڑکے کو اوپر کی طرف دھکا دیا ۔ جونہی جمیل کا سر پانی سے باہر نکلا اس نے اچھل کر غوطہ لگایا اور دوبارہ لڑکے کو اوپر دھکیلا۔ اس بار کچھ پانی جمیل کی ناک میں گھس گیا۔ جب جمیل کا سر باہر نکلا تھا تو اسے آوازیں سنائی دی تھیں۔ ” سر۔ ایک دم پیچھے ہٹ جائیں”۔ چنانچہ دوسری بار جمیل کا سر پانی سے باہر نکلا تو وہ کوشش کر کے 4 فٹ دور کنارہ پر لگی سیڑھی تک پہنچا اور سویمنگ پول سے باہر نکل آیا۔

جمیل چند منٹ کھانستا رہا ۔ اس کے بعد اس نے دیکھا کہ ایمبولنس لڑکے کو لے کر جا رہی ہے ۔ ایمبولنس جانے کے بعد طلعت اور جمشید جمیل کے پاس آئے اور کہا “سر۔ یہ آپ نے کیا کیا ؟ آپ کو تیرنا بھی نہیں آتا اور آپ نے گہرے پانی میں چھلانگ لگا دی” ۔ جمیل بولا “میں لڑکے کو ڈوبتا ہوا نہیں دیکھ سکتا تھا ۔ اچھا ہوا آپ لوگ پہنچ گئے اور لڑکے کو بچا لیا”۔ طلعت بولا “سر۔ لڑکے کو ہم نے نہیں آپ ہی نے بچایا۔ آپ لڑکے کو پانی کی سطح پر لے آئے تھے۔ ہم نے تو اسے صرف پول سے باہر نکالا ”

(جمیل ۔ افتخار اجمل بھوپال)

فراغت

بچپن میں سنا کرتے تھے “خالی بیٹھے شیطان سوجھے”۔ اللہ کروٹ کروٹ جنت عطا فرماۓ ہمارے اساتذہ کو ۔ انہوں نے ہماری تربیّت بھی کچھ ایسی کی ۔ مجھے نہ تو گلی کی نکّڑ پر کھڑے ہو کر یا پلّی پر بیٹھ کر گپیں ہانکنے کی عادت تھی اور نہ آوارہ گردی کی ۔ اپنا وقت گذارنے کے لئے میں اچھی کتابیں پڑھتا اور چھوٹی چھوٹی کہانیاں لکھا کرتا تھا ۔ جن پر میرے اساتذہ مجھے شاباش دیا کرتے تھے اور میں خوشی سے پھولا نہ سماتا ۔ کچھ دن پہلے میں اپنے کاغذات پھرول رہا تھا کہ مجھے بچپن کی لکھی ایک کہانی ملی جس پر میرے استاد اتنے خوش ہوۓ تھے کہ صبح دعا کے وقت انہوں نے سارے سکول کے طلباء اور اساتذہ کے سامنے پڑھ کر سنائی تھی ۔ وہ کہانی میں دو دن پہلے بلاگ پر لکھ چکا ہوں ۔

علّامہ اقبال فراغت کے سلسلہ میں کہتے ہیں ۔ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ
اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ
میّسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو
نہیں ہے بندہء حر کے لئے جہاں میں فراغ

جانچا تو دو کوڑی کا نہ نکلا ایمان اپنا

عبداللہ سوات کے پہاڑوں کی ایک خطرناک ڈھلوان پر چل رہا تھا کہ اس کا پاؤں پھسل گیا ۔ کچھ لڑھکنے کے بعد اس کے ہاتھ میں ایک جھاڑی کی ٹہنیاں آ گئیں اور وہ ان سے لٹک گیا ۔ اس نے نیچے کی طرف جانکا تو نیچے سیدھی ڈھیڑ دو سو فٹ گہری کھڈ دیکھ کر بہت پریشان ہوا ۔ جن ٹہنیوں سے وہ لٹکا ہوا تھا وہ کسی بھی لمحے ٹوٹ سکتی تھیں ۔ ایک ایک لمحہ بہت بھاری گذر رہا تھا یہاں تک کہ عبداللہ کی گرفت کمزور ہونے لگی ۔
وہ اپنی پوری قوت سے چلّایا ” کوئی ہے ۔ کوئی ہے ۔ بچاؤ بچاؤ ”
اچانک کہیں سے ایک بہت بھلی آواز آئی ۔ ” عبد عبد ۔ سنو عبد ”
عبداللہ نے جلدی سے کہا ” ہاں میں سن رہا ہوں تم کون ہو اور کہاں ہو ؟ ”
جواب آیا ۔ ” میں ہوں تمہارا پیدا کرنے والا تمہارا رب ۔ میں ہر جگہ موجود رہتا ہوں ”
عبداللہ حیرانی سے بولا ۔ ” آپ ۔۔۔ اللہ ۔۔۔ اللہ تعالی ہو ۔ یا اللہ میں وعدہ کرتا ہوں میں اب کبھی کوئی برا کام نہیں کروں گا ۔ ساری زندگی عبادت میں گذار دوں گا ”
آواز آئی ۔ ” حوصلہ کرو عبد پہلے تمہیں بحفاظت اتار لیں پھر آرام سے بات کریں گے ”
عبداللہ بولا ۔ ” مولا کریم پھر جلدی کریں”
آواز آئی ۔ ” میری بات غور سے سنو عبد اور جو کہوں وہ کرو ”
عبداللہ بولا ۔ ” میرے مالک میں سب کچھ کرنے کے لئے تیار ہوں ”
آواز آئی ۔ ” عبد شاخ کو چھوڑ دو ”
عبداللہ سخت پریشانی میں بولا ۔” کے کے کے کیا آ آ آ آ ؟ ”
آواز آئی ۔ ” ہاں عبد مجھ پر بھروسہ کرو اور بے فکر ہو کر شاخ چھوڑ دو
“کچھ دیر خاموشی رہی اور پھر عبداللہ کی آواز گونجی ۔ ” کوئی ہے ۔ کوئی ہے ۔ بچاؤ بچاؤ “

خوشی صرف امیروں کی میراث ہے ؟ ؟ ؟

ضروری نہیں کہ خوش ترین شخص کے پاس ہر نعمت یا ہر آسائش ہوخوشی کا راز یہ ہے کہ انسان اپنی دسترس میں آنے والی چیز سے بھرپور فائدہ اٹھاۓ
اور اللہ کا شکر ادا کرے کیونکہ اگر وہ بھی نہ ملتا تو کیا کرتا

مسلمانوں کی تاریخ بڑی کمزور ہے ؟ ؟ ؟

مسلم ہائی سکول میں ہمارے ایک استاد سبغت اللہ قریشی صاحب ایم اے انگلش اور ایم اے سوشل سائنسز تھے ۔ انہوں نے نویں اور دسویں جماعت میں ہمیں تاریخ اور جغرافیہ پڑھایا تھا ۔ نظم وضبط کے بہت پابند اور کلاس میں بہت سنجیدہ رہتے تھے ۔ جس دن تاریخ کی کلاس ہوتی پڑھانا شروع کرنے سے پہلے کہتے ” مسلمانوں کی تاریخ بڑی کمزور ہے” ۔ کسی لڑکے کو پوچھنے کی ہمت نہ پڑی کہ ایسا کیوں کہتے ہیں ۔میٹرک کے نتیجہ کے بعد ہم سکالر شپ حاصل کرنے والے چند لڑکے سکول گئے ۔ سب اساتذہ سے ملے اور مبارکیں وصول کیں ۔ ماسٹر قریشی صاحب نے ہمیں سینے سے لگا لگا کر مبارک باد دی ۔ ایک لڑکے نے ہمت کر کے پوچھا ” ماسٹر صاحب ۔ مسلمانوں کی تاریخ تو بہت اچھی ہے ۔ آپ یہ کیا کہا کرتے تھے”۔ استاد صاحب نے ہنس کر کہا ” نہیں بیٹا یہ بات نہیں جو آپ سمجھے ۔ یہ بات آپ کو بڑے ہو کر خود ہی سمجھ آ جاۓ گی” ۔

مجھے 40 سال قبل جب بات سمجھ میں آئی تو بہت دیر ہو چکی تھی محترم استاد ایک سال قبل 1964 میں اس فانی دنیا کو الوداع کہہ چکے تھے ۔ اللہ انہیں جنت الفردوس میں جگہ عطا فرماۓ ۔ بات صحیح ہے کہ نہ تو ہم لوگ تاریخ پڑھنے میں دلچسی لیتے ہیں نہ گذری باتیں یاد رکھ کر ان سے کوئی سبق حاصل کرتے ہیں ۔ ہماری پسماندگی کی چند بڑی وجوہ میں سے ایک وجہ یہ بھی ہے ۔

حشر نشر

علامہ اقبال کے شعروں کے ساتھ بہت لوگوں نے پسندیدگی کا اظہار کیا ہے اور بعض اوقات اس پسندیدگی نے حشر نشر کی صورت اختیار کی ۔ بہت پرانی بات ہے راولپنڈی میں راجہ بازار کے فوارہ چوک (جہاں کبھی فوارہ بنا دیا جاتا ہے اور کبھی توڑ دیا جاتا ہے) سے لیاقت روڈ پر چلیں تو بائیں طرف ایک ہوٹل ہوتا تھا “علی بابا ہوٹل ۔ آنہ روٹی دال مفت” روپے میں 16 آنے ہوتے تھے اور یہ روٹی آجکل کی پانچ روپے والی کے برابر تھی ۔ اس ہوٹل کی دیوار پر جلی حروف میں لکھا ہوتا تھا

نہیں تیرا نشیمن قصر سلطانی کے ٹوٹل پر
تو شاہین ہے کر بسیرا علی بابا کے ہوٹل پر

اسی زمانہ میں ایک رسالے میں کارٹون شائع ہوا جس میں لکھا تھا

خودی کو کر بلند اتنا کہ جا پہنچے پہاڑی پر
خدا بندے سے پھر پوچھے دس پترا اترسیں کس طراں