Monthly Archives: October 2005

ہماری امداد کریں ناں۔۔۔

میرا نام صبا ہے۔ میں نویں جماعت میں پڑھتی ہوں۔ میری عمر اب چودہ سال ہے۔ اس زلزلے میں میرے امی ابو دونوں کا انتقال ہو گیا۔ ہم دو بہنیں ہیں۔ لاوارث ہیں۔ بس یہاں کھلے آسمان کے نیچے بیٹھے رہتے ہیں۔ یہاں کھانے پینے کے لیے بھی کچھ نہیں ہے۔ ابھی بچے رو رہے تھے، بھوکے ہیں سب۔ ہمیں کچھ مدد نہیں دے رہے۔ ایک گاوں میں رہنے والے دہات والوں کو ایک ٹینٹ دے دیتے ہیں، اور کہتےہیں کہ بس سب کو دے دی امداد۔ اس وقت میرے آس پاس بہت سارے بچے بیٹھے ہوئے ہیں۔ سارا دن یہ بچے یوں ہی بیٹھے رہتے ہیں۔ کبھی کھانا مانگتے ہیں، کبھی روتے ہیں۔ سردی بھی بہت رہتی ہے۔ کچھ بچوں کو نمونیا ہو گیا ہے۔ تین، چار، پانچ سال کے چھوٹھ چھوٹے بچے ہیں جنہیں سردی کی وجہ سے نمونیا ہو گیا ہے۔ سارے جانور اور مویشی بھی مکانوں کے نیچے دب کر مر گئے۔ہماری امداد کریں ناں۔۔۔

یہ جو جہاز وغیرہ ہیں، یہ ہمارے سامنے فوجی رہتے ہیں ان کی مدد کرتے ہیں ، ادھر جا کر بیٹھتے ہیں ۔ ہمیں کچھ نہیں دیتے ۔ پل
بھی جو تھا ، دریا نیلم کے اوپر، وہ بھی گر گیا ۔ ہماری کچھ مدد کریں ناں۔۔۔

امدادی سامان جل کر راکھ ہو گیا

کراچی کے سٹی ریلوے سٹیشن پر زلزلے کے متاثرین کے لیے بھیجے جانے والے سامان میں آگ بھڑک اٹھی جس سے سارا سامان جل کر خاکستر ہوگیا۔ سندھ بوائز اسکاؤٹ کی جانب سے کیمپ لگا کر یہ سامان جمع کیا گیا تھا جو ریل کے ذریعے راولپنڈی روانہ کیا جانا تھا۔ سٹی ریلوے پولیس کا کہنا ہے کہ دوپہر کو ریل کی بوگی میں اچانک آگ بھڑک اٹھی جس کے بعد پوری بوگی جل گئی۔ پولیس کے مطابق بوگی میں زلزلے زدگان کے لیے بستر، لحاف، کھانے پینے کی اشیا اور دیگر سامان موجود تھا۔ اس کے علاوہ اس سامان میں ماچس کے پیکٹ بھی تھے جن کے جل جانے سے آگ نے اور زور پکڑ لیا۔

ریلوے پولیس کا کہنا ہے کہ ریلوے کی جانب سے یہ بوگی مفت میں سندھ اسکاوّٹس کو فراہم کی گئی تھی۔

زلزلے یا ہزاروں ایٹم بم اور متاءثرین کے شب و روز

ميں نے آزاد جموں کشمیر اور صوبہ سرحد کے ساتھ اسلام آباد میں 15 اکتوبر رات 12 بج کر 37 منٹ 42 سیکنڈ تک آنے والے رخٹر سکیل پر 4 سے زیادہ شدت والے زلزلوں اور جھٹکوں (آفٹر شاکس) کا ریکارڈ پیش کر دیا تھا ۔ اس کے بعد مزید مندرجہ ذیل زلزلے آۓ ۔رخٹر سکیل پر 4 سے کم شدت کے بھی کئی زلزلے آئے مگر ان کا ریکارڈ نہیں ہے ۔

15 اکتوبر

صبح 9 بج کر 24 منٹ 6 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 1 شدت کا
صبح 9 بج کر 32 منٹ 21 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 شدت کا
صبح 11 بج کر 52 منٹ 14 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 4 شدت کا

17 اکتوبر

صبح 3 بج کر 5 منٹ 33 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 3 شدت کا
بعد دوپہر 3 بج کر 43 منٹ 8 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 1 شدت کا

18 اکتوبر

رات 11 بج کر 32 منٹ 3 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 5 شدت کا

19 اکتوبر

رات 2 بج کر 20 منٹ پر رخٹر سکیل پر 4 اعشاریہ 5 شدت کا
رات 2 بج کر 20 منٹ 6 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 3 شدت کا
صبح 7 بج کر 33 منٹ 30 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 8 شدت کا
صبح 8 بج کر 16 منٹ 22 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 4 شدت کا
بعد دوپہر 5 بج کر 47 منٹ 28 سیکنڈ پر رخٹر سکیل پر 5 اعشاریہ 2 شدت کا

کچھ خبریں

جھٹکوں یا آفٹر شاکس کے علاوہ 80 زلزلے بھی آۓ

کراچی یونیورسٹی کے جیالوجسٹ ڈاکٹر نیئر ضیغم نے بی بی سی اردو سروس کو بتایا کہ پاکستان کے زیر انتظام کشمیر اور شمالی علاقوں میں اتنے شدید زلزلے کی وجہ زمین کی سطح سے صرف دس سے بیس کلو میٹر کی گہرائی پر توانائی کی بڑی مقدار کا اخراج تھا ۔ پاکستان میں اکتوبر کی آٹھ تاریخ کو سات عشاریہ آٹھ اور اس کے بعد چھ عشاریہ چار کی شدت سے آنے والے دو زلزلوں میں جتنی توانائی خارج ہوئی ہے وہ ایک میگا ٹن کے ساٹھ ہزار ایٹم بموں کے دھماکوں کے برابر تھی۔ انہوں نے کہا کہ اتنے شدید زلزلے نے ایک ڈگری سکوائر کے علاقے میں دوسری فالٹ لائنز کو بھی متحرک کر دیا ہے اور ماضی میں غیر متحرک یا سوئی ہوئی فالٹ لائنز بھی زلزلوں کا باعث بن رہی ہیں ۔

ڈاکٹر نیئر نے کہا کہ پندرہ تاریخ تک اس علاقے میں پچہتر زلزلے ریکارڈ کیے گئے جن کو سائنسی اصطلاح میں آفٹر شاک یا جھٹکے کہنا ٹھیک نہیں بلکے یہ علیحدہ علیحدہ زلزلے تھے۔ انہوں نے کہا کہ اب تک ماہرین کا خیال یہی تھا کہ یہ بڑے زلزلے کے بعد آنے والے جھٹکے ہیں لیکن اس زلزلوں کا جائزہ لینے کے بعد معلوم ہوا ہے کہ یہ الگ الگ زلزلے تھے اور کسی ایک جگہ نہیں آ رہے۔ انہوں نے کہ ہمالیہ پہاڑیوں کے تھرسٹ سسٹم میں ارتعاش پیدا ہوگیا ہے۔

متاءثرین کے شب و روز

بی بی سی کے مطابق پاکستان کے زیر انتظام کشمیر میں زلزلے کے باعث ہزاروں خاندان پاکستان کے مختلف شہروں میں منتقل ہوگئے ہیں۔ یہ خاندان یا تو اپنے طور پر رہ رہے ہیں یا حکومت کی طرف سے قائم چند خیمہ بستیوں میں رہائش پذیر ہیں یا وہ اسلام آباد میں کیپٹل ڈویلپمنٹ اتھارٹی کے تعمیر کیے گئے فلیٹس میں رہتے ہیں ۔ یہ فلیٹس اسلام آباد میں آبپارہ میں واقع ہیں ۔ ایسے ہی ایک مقام پر بہت سے بچے ڈھیر میں سے کپڑے تلاش کر رہے تھے۔ ایک بچی نے کہا کہ اس کو کچھ نہیں ملا۔ ایک بچہ ہنستےہوئے بولا کہ اس کو ایک جیکٹ مل گئی لیکن وہ اسے چھوٹی ہے۔

ان کا کہنا تھا کہ ان کو یہ کپڑے پسند نہیں ہیں اور یہ سارے بچے کھلکھلاتے ہوئے بیک آواز بولے کہ یہ لنڈا بازار ہے۔

ایک فلیٹ میں مقیم مظفرآباد کے رہائشی ہلال پیرزادہ کا کہنا ہے کہ یہ کپڑے پاکستان کی حکمران جماعت مسلم لیگ کے سربراہ چوہدری شجاعت حسین نے بھیجے ہیں ۔
ان کا کہنا تھا کہ یہ بڑی خوبصورتی سے پیک کیے گئے تھے لیکن جب ان کو کھولا گیا تو اندر سے پھٹے پرانے کپڑے نکلے جو بالکل ناکارہ اور ناقابل استعمال تھے۔
ان کا کہنا ہے کہ کشمیری اس مشکل حالات میں بھی اس سے کئی بہتر چیزیں عطیے میں دے سکتے ہیں۔

لگ بھگ تین سو فلیٹس میں کچھ دنوں سے مقیم چھ سات سو خاندان خاصی مشکل زندگی گذار رہے ہیں۔

ایک فلیٹ میں مقیم مظفرآباد کی خاتون نبیلہ حبیب کا کہنا ہے کہ ان کے تین خاندان دو کمروں کے فلیٹ میں رہتے ہیں اور گزر اوقات کر رہے ہیں۔ یہ زندگی نہیں ہے۔ ‘کہاں اپنا گھر اور گھر کا آرام اور کہاں یہ’۔ انہوں نے جذباتی ہو کر کہا کہ ان کے پرانے گھر کا سٹور ان کمروں سے بہتر تھا جس میں وہ اب سوتے ہیں۔ انہوں نے کہا کہ ‘ہم دوسروں کے محتاج ہوگئے ہیں کہ وہ کھانا لائیں گے اور ہم کھائیں گے جب ہمیں شاپر میں پیک کرکے کھانا دیا جاتا ہے تو بہت دکھ ہوتا ہے پہلے ہم روتے ہیں پھر کھاتے ہیں۔ ہماری عزت نفس مجروح ہورہی ہے ۔ہمیں ساری رات نیند نہیں آتی ہے ہمیں کوئی سکون نہیں ہے’۔ انہوں نے کہا کہ وہ پیر کو بچوں کی کچھ چیزیں خریدنے کے لیے بازار گئی تو وہاں دوکانیں دیکھ کر انہیں اس لیے رونا آرہا تھا کہ کبھی وہ بھی ایسی ہی دوکانوں کے مالک تھے۔

نبیلہ کا کہنا تھا کہ یہاں کے لوگوں نے ان کی بہت مدد کی لیکن ساتھ ہی ان کا کہنا تھا کہ ‘ہم اپنے شہر میں عزت سے اور ٹھاٹھ سے رہتے تھے لیکن ہم یہاں چوروں کی طرح رہ رہے ہیں’۔

ان فلیٹس میں رہنے والے بےگھر کشمیری اپنے اور اپنے بچوں کے مستقبل کے بارے میں فکر مند ہیں ۔

آصفہ جو پیشے کے اعتبار سے ایک استاد ہیں ان کا کہنا ہے کہ ان کے بچے اچھے سکولوں میں پڑھتے تھے لیکن یہاں بچوں کو کوئی سہولت نہیں ہے۔ اب بچوں کا مستقبل کیا ہے، وہ خود گریڈ سولہ کی ملازم ہیں ان کا مستقبل کیا ہے۔ ان کی بہنوں کا کیا مستقبل ہے ۔ کچھ سمجھ نہیں آرہا ہے وہ سوالیہ نشان بن گئے ہیں۔ آصفہ تین بچوں کی ماہ ہیں اور ان کا تعلق بھی مظفرآباد سے ہے ۔ان کا کہنا تھا کہ کب تک وہ اپنے بچوں کو خشک بسکٹ اور ٹھنڈا دودھ دیں گے۔ اس سے بچے بیمار ہوجائیں گے جو آدھے بچے بچ گئے ان کو تو نہ ماریں۔

پروفیسر عبدالمجید کا تعلق بھی مظفرآباد سے ہے۔ وہ کہتے ہیں کہ انہیں ان فلیٹوں میں بجلی، پانی اور گیس میسر نہیں ہے جبکہ یہاں تینوں کے کنکشن پہلے سے ہی موجود ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ان کے پاس کوئی حکومتی اہلکار نہیں آیا البتہ ان کا کہنا تھا کہ ان کے لوگوں نے قومی اسمبلی کے سپیکر سے ملاقات کرکے انہیں اپنی مشکلات سے آگاہ کیا تھا اور انھوں نے یہ یقین دہانی کرائی تھی کہ وہ مسائل حل کریں گے لیکن ابھی تک کچھ نہیں ہوا۔

حکومت نے زلزلے سے متاثرہ علاقے میں امدادی کام شروع کیا ہے لیکن یہ اندازہ نہیں لگایا جا سکتا کہ یہ خاندان کتنے عرصے تک مشکلات کا شکار رہیں گے اور کب ان کی معمول کی زندگی بحال ہوگی۔

لین دین

سورۃ 17 بنی اسرآءیل آیۃ 35 ۔ پیمانے سے دو تو پورا بھر کے دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو ۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی بہتر ہے ۔

سورۃ 61 الصف آیۃ 2 اور 3 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہر ؟ اللہ کے نزدیک یہ سخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔

ایک خبر

امریکہ نے 20000 خیمے پاکستان روانہ کر دیئے ہیں ۔ ان میں 5000 سے زائد خیمے ایسے ہیں جن پر Made in Pakistan لکھا ہوا ہے ۔ دریافت کرنے پر معلوم ہوا کہ یہ خیمے لاہور میں بنے ہوۓ ہیں اور امریکی فوچ کو فروخت کئے گئے تھے ۔

امدادی کاروائیاں ۔ باتیں ادھر ادھر کی

سب سے پہلے ذکر وزیراعظم شوکت عزیز صاحب کے ایک مستحسن اعلان کا ” جن متاءثرہ بچوں کے قانونی وارثین نہ مل سکے ان کی پرورش حکومت کرے گی ۔ کسی کو بچہ گود لینے کی اجازت نہ ہو گی” ۔ پاکستان انسٹیٹیوٹ آف میڈیکل سائنسز (پمس) سے ایک بچی کے اغواء کی کوشش کے بعد یہ فیصلہ ضروری تھا ۔ یہ اغواء کی کوشش ایک خاتون رضاکار نے ناکام بنا دی تھی جس میں رضاکار زخمی بھی ہوگئی ۔خیموں اور کمبلوں کی کمی شدت سے محسوس کی جارہی ہے جو کہ ہزاروں کی تعداد میں مطلوب ہیں ۔ پاکستان میں خیمے بنانے کی استداد ہہت ہی کم ہے اس لئے ہنگامی بنیاد پر غیر ممالک سے درآمد ضروری ہے ۔ پہاڑوں پر برف باری کی وجہ سے متاءثرہ علاقوں میں بہت سردی ہو گئی ہے ۔ اسلام آباد اور راولپنڈی میں بھی سردی ہو گئی ہے ۔ اس لئے خیمے سرد موسم کے لئے موزوں ہونے چاہیئں اور ان میں بارش کے پانی کو روکنے کی صلاحیت ہونا بھی ضروری ہے ۔ یہاں کلک کر کے خیمہ کا نمونہ ملاحظہ کیجئے

عوام کی سطح پر اللہ کے فضل سے ہر پاکستانی اس موقع پر اپنی کی سی ہر کوشش اور مدد متاءثرین کے لئے کر رہا ہے ۔ اعلی سطح پر مناسب پلاننگ اور کوآرڈینیشن نہ ہونے کے باعث عوام کی محنت کا کچھ حصہ ضائع ہو رہا ہے ۔ غیر ملکی رضاکاروں کے علاوہ وہ لوگ جن کو روشن خیال لوگ نفرت سے ملّا یا جہادی کہتے ہیں مربوط طریقہ سے جانفشانی سے کام کر رہے ہیں ۔ ان کے کچھ رضاکار بند راستوں کی پروہ نہ کرتے ہوۓ ملبہ ہٹانے کا سامان کندھوں پر اٹھا کر کئی کئی میل پیدل چل کر متاءثرہ علاقوں میں پہلے ہی دن یعنی 8 اکتوبر کو پہنچ گئے تھے ۔

کراچی سے ہمارے بلاگر ساتھی اعجاز آسی بھر پور خدمت کے جذبہ کے ساتھ تین دن سے اسلام آباد پہنچے ہوۓ ہیں کل سارا دن وہ پمس میں رہے جہاں مریضوں یا متاءثرین کا مربوط ریکارڈ رکھنے کا کوئی انتظام نہیں ہے ۔ ان کی کوشش ہے کہ ایک مربوط کمپیوٹرازڈ ڈاٹا بیس قائم کی جاۓ ۔ ماہرین حضرات ان کی مدد کر کے قومی جذبہ کا اظہار کریں اور ثواب بھی کمائیں ۔ ان کا ٹیلیفون نمبر ہے 03002627033

کچھ ناپسندیدہ واقعات دکانوں اور امدادی سامان کے ٹرک کو لوٹنے کے ہوۓ تھے ۔ اسے روکنے کے لئے کچھ مقامی نوجوان متحرک ہوۓ اور حکومتی ادارے نے خفیہ تفتیش شروع کی جس کے نتیجہ میں پتہ چلا کہ دکان لوٹنے والوں میں سے کوئی مقامی نہیں تھا اور ٹرک لوٹنے کا بندوبست بھی ایک غیر مقامی شریف نما بد قماش آدمی نے کیا تھا اور دیکھا دیکھی پانچ دن سے بھوکے پیاسے چند متاءثرین نے ان کی پیروی کی ۔ اس بدقماش بارسوخ شخص کو گرفتار کر کے اس کے گودام سے لوٹا ہوا کافی مال برآمد کر لیا گیا ہے ۔ یہ شخص اس کے علاوہ ہے جو چند دن قبل کراچی میں پکڑا گیا تھا ۔ دیگر اب مجاہدین جن کو کچھ لوگ جہادی کہتے ہیں امدادی سامان لانے والے ان ٹرکوں کی حفاظت کر رہے ہیں جن کے ساتھ ان کا اپنا حفاظتی دستہ نہیں ہوتا

ایک ادارہ بنام بالی فاؤنڈیشن نے اسلام آباد سپورٹس کمپلیکس میں امدادی ہسپتال بنایا ہوا ہے ۔ مرکزی حکومت نے پمس اور فیڈرل ایجوکیشن بورڈ کے قریب عارضی ہسپتال قائم کئے ہوۓ ہیں اور اب ایک خیمہ بستی ایچ 10 میں جلد بنانے کا منصوبہ ہے ۔ راولپنڈی میں حکومت پنجاب کے تین ہسپتال ہیں جن میں امدادی کام زور شور سے ہو رہا ہے ۔ کل تک صرف ایک ہسپتال (ڈی ایچ کیو) میں 550 زخمی متاءثرین آۓ جن میں سے 284 زیر علاج ہیں باقیوں کو دوسرے ہسپتالوں میں منتقل کیا گیا ۔

اتوار کو دو لڑکے نو اور سات سالہ خود ہی اپنے مکان کے ملبہ کے نیچے سے نکلنے میں کامیاب ہو گئے اور پہاڑوں سے پیدل چلتے ایک فوجی کیمپ پر پہنچ کر بتایا کہ ان کی ایک گیارہ سالہ پولیو زدہ بہن ملبہ کے نیچے دبی ہوئی ہے اسے نکالا چاۓ ۔ فوجی ان لڑکوں کے ساتھ گئے اور لڑکی کو نکالا تو وہ زندہ تھی ۔ بالا کوٹ کے قریب ایک پہاڑ پر زلزلہ کے 9 دن بعد ملبہ کے نیچے سے ایک 6 سالہ لڑکی زندہ مگر بیہوش برآمد ہوئی ۔ وہ گرنے والی الماری کے نیچے ایک خانہ میں آ گئی تھی ۔

– زلزلہ سے متاءثرہ افراد کے متعلق معلومات Information Exchane Quake Affected People

زلزلہ سے متاءثرہ علاقے کے گم شدہ اور باز یافتہ افراد کے متعلق معلومات حاصل کرنے یا بہم پہنچانے کے لئے نیچے دیئے ہوۓ لنک پر کلک کیجئے یا اپنے کمپویٹر کے براؤزر میں مندرج ذیل لکھ کر ویب سائٹ کھولئے ۔ ۔ ۔ وساطت : اعجاز آسی
http://missingpersons.dsl.net.pk/

سب سے درخواست ہے کہ یہ اطلاع اپنے تمام جاننے والوں تک پہنچائیے

Please click on the URL above to see or record information about people affected by Earth Quake. You can also do it by writing above URL in your browser window. . . Courtesy: Ejaz AsiPlease inform as many people as possible