Monthly Archives: August 2005

دانیال صاحب کا اِستفسار ۔ تیسری قسط ۔ مُلاؤں کی بے عِلمی کا سبب کیا ہے ؟

جاہل مُلّا
کہتے ہیں نیم حکِیم خطرہءِ جان نیم مُلّا خطرہءِ ایمان ۔ صرف 2 واقعات درج کروں گا
1 ۔ آٹھویں جماعت میں میرے سکول کی اسلامیات کا حال دیکھ کر والد صاحب نے راولپنڈی شہر میں محلے کی مسجد کے امام صاحب کی ٹیوشن مقرر کی کہ میں قرآن شریف دوہرا لوں ۔ میں تلاوت شروع کرتا تو مولوی صاحب سو جاتے ۔ پارہ ختم ہو جاتا تو وہ جاگ جاتے ۔ اِسی طرح 2 ماہ میں پورا قرآن شریف پڑھا ۔ یہ صاحب بغیر مدرسہ گئے مولوی بن گئے تھے ۔ میری تلاوت کی تصحیح پھر میری والہ صاحبہ نے کی

2 ۔ حکومت نے 1984ء میں سکولوں میں اِسلامیات کے اُستاد مدرسوں سے سنَد یافتہ رکھنے کا فیصلہ کیا ۔ یہ کام ایک سیکشن آفیسر کے سپرد ہوا جو ہمارے سیٹلائٹ ٹاؤن راولپنڈی والے گھر کے قریب مسجد کے خطیب بھی تھے ۔ ایک شام میں کسی کام سے ان کے پاس گیا تو پریشان پایا ۔ وجہ پوچھی تو کہنے لگے پہلی قسط میں 500 اساتذہ بھرتی کرنا ہیں ۔ ایک سالہ کورس کی سند ہونی چاہیئے ۔ میں نے 6 اور 3 ماہ والوں کے نام بھی لکھ لئے ہیں ۔ اس کے باوجود 247 ہوئے ہیں
میں نے کہا ”جناب ۔ اتنے سارے امام مسجد خیراتی روٹیوں پر پَل رہے ہیں ان کو لے لیں“۔
فرمانے لگے ”محلہ میں جو بقیہ 4 مساجد ہیں ان کے امام ایک دن کے لئے مدرسہ نہیں گئے“۔
میں نے حیرت سے کہا ”تو یہ امام کیسے بن گئے؟“
فرمایا ”لوگوں نے اپنی مقصد براری کے لئے بنا دیئے یا خود زورآوری سے بن گئے ہوں گے“۔
میں نے پوچھا ”یہ سینکڑوں جو رجسٹر شدہ مدرسوں سے فارغ التحصیل ہوتے ہیں ؟“
فرمایا ”حکومت نے اسلامیات کے اُستاذ کی تنخواہ اتنی کم رکھی ہوئی ہے کہ بتاتے ہوئے شرم آتی ہے ۔ اور امام مسجد کا ماہانہ معاوضہ تو تذلیل سے کم نہیں ۔ اسلام آباد کی مرکزی مسجد (لال مسجد) کے خطیب کی ماہانہ تنخواہ سکیل نمبر 12 ہے اور باقی مساجد کی پے سکیل نمبر 9 ۔ اس لئے مدرسہ کا فارغ التحصیل انگریزی کا امتحان پاس کر کے ایم اے ہو جاتا ہے اور سی ایس ایس پاس کر کے سیکشن آفیسر یا مجسٹریت بن جاتا ہے ۔ کئی لوگ اِکنامکس وغیرہ کر لیتے ہیں اور کسی پرائیویٹ کمپنی میں اِن سے بھی زیادہ تنخواہ پاتے ہیں

جاہل مُلّا کہاں سے آئے ؟
مُلّا اور جاہل اس حقیقت نے مجھے لڑکپن ہی میں پریشان کر دیا تھا ۔ میں اس کا مَنبہ تلاش کرنے میں لگ گیا ۔ حالات کی سختیاں جھِیلتے سال گذرتے گئے مگر میری جُستجُو جاری رہی ۔ آخر عُقدہ کھُلا
ہندوستان ميں انگریزوں کی حکومت بننے سے پہلے بڑی مساجد عِلم کا گھر ہوا کرتی تھیں اور انہیں جامع یعنی یونیورسٹی کہا جاتا تھا ۔ وہاں دینی تعلیم کے ساتھ دنیاوی علُوم (ریاضی ۔ طِب ۔ معاشیات ۔ معاشرت ۔ طبیعات ۔ کیمیاء ۔ علوم الارض وغیرہ) بھی پڑھائے جاتے تھے ۔ طلباء دُور دراز حتٰی کہ غیر ممالک سے آکر سالہا سال قیام کرتے اور عِلم حاصل کرتے تھے ۔ اساتذہ اور تعلیم کا خرچ چلانے کے لئے مُسلمان بادشاہوں نے ان مساجد کو بڑی بڑی جاگیریں دے رکھی تھیں جن میں سبزیاں اور پھل اُگا کر اخراجات پورے کئے جاتے تھے ۔ اس کے علاوہ مسلمان بادشاہ اور امیر طلباء نذرانے بھی دیتے رہتے تھے
خیال رہے کہ احیائے اسلام سے قبل گرجا ہی عِلم کا گھر ہوا کرتا تھا ۔ پرانے زمانہ کے کئی معروف سائنسدان پادری تھے

پھر 1857ء میں جب ہندوستان پر انگریزوں کا مکمل قبضہ ہو گیا تو اُنہوں نے ہُنرمندوں کے ساتھ عُلماء (جو دین کے علاوہ دُنیاوی علوم سے بہرہ ور تھے) بھی قتل کروا دیئے اور جامعات کی جاگیریں ضبط کر لیں ۔ اِس کے بعد پسماندہ علاقوں سے 8 جماعت تک پڑھے نوجوان چُنے جو دین و دُنیا کا کوئی عِلم نہ رکھتے تھے ۔ ان جوانوں کو برطانیہ بھیج کر چند ماہ کا امام مسجد کا کورس کرایا گیا اور واپسی پر مساجد کا بغیر تنخواہ کے امام مقرر کر دیا ۔ ان اماموں کا نان و نُفقہ علاقہ کے لوگوں کے ذمہ کر دیا گیا اور نگرانی علاقہ کے نمبردار یا چوہدری یا وڈیرے یا سردار وغیرہ جو خُود انگریزوں نے مقرر کئے ہوئے تھے کے ذمہ کر دی ۔ آجکل کے جاہل مُلّا زیادہ تر اسی عمل کا نتیجہ ہیں

فرقہ وارانہ تشدد
موجودہ حالات میں سمجھ میں نہیں آتا کہ فرقہ وارانہ تشدد کی وجہ کیا ہو سکتی ہے ۔ کیونکہ متحدہ مجلس عمل دیوبندی ۔ بریلوی ۔ شیعہ یا اثناعشری اور اہل حدیث سب کا اتحاد ہے اور حکومت کی اسے توڑنے کی کوششوں کے باوجود یہ اتحاد قائم ہے ۔ کوئی ایسی قوت ہے جو ایم ایم اے کے اتحاد کو ختم کرنے کے لئے کبھی ایک فرقہ کے اور کبھی دوسرے فرقہ کے لوگوں کو قتل کر یا کروا رہی ہے ۔ ظاہر ہے یہ کام صرف دین کے دشمن ہی کر سکتے ہیں ۔

جاہل اور فرقہ واریت پھیلانے والے ملّا حکومت کی لگائی ہوئی پنیری اور حکومت کے باغ کے درخت ہیں ۔ حکمران ان لوگوں کو علماء و مشائخ کے نام سے یاد کرتے ہیں ۔ ان میں مساجد کے امام بھی ہیں اور شیخ بے مسجد بھی ۔ کنونشن سنٹر اسلام آباد میں حکومت کے خرچ پر ایک علماء و مشائخ کانفرنس منعقد ہوئی تھی جس سے صدر جنرل پرویز مشرف نے خطاب کیا اور ان سے اپنے حق میں قرارداد منظور کروائی ۔ اس کانفرنس کا ایم ایم اے ۔ بے نظیر کی پی پی پی اور نواز شریف کی مسلم لیگ نے بائیکاٹ کیا تھا ۔ اس کے باوجود صرف راولپنڈی سے 260 علماء و مشائخ شامل ہوئے جبکہ راولپنڈی میں 150 مساجد بھی نہیں اور بہت سے مولوی ایم ایم اے ۔ بےنظیر اور نواز شریف کے حامی ہیں ۔ ہر حکومت کو ایسے داڑھی والوں کی ضرورت ہوتی ہے جو حکومت کے حق میں فتوی دیں ۔ باقی وقت اپنا ٹَیکا رکھنے کے لئے یہ نام نہاد علماء و مشائخ فرقہ پرستی کرواتے ہیں ۔ ان کے خلاف اگر حکومت کوئی قدم اٹھائے گی تو پھر حکومت کے حق میں فتوے کون دے گا ۔

جشن آزادی مبارک

ان ہم وطنوں کو آزادی کی سالگرہ مبارک جو اپنے آپ کو پاکستانی سمجھتے ہیں ۔ اللہ ہمیں آزادی کے صحیح معنی سمجھنے اور اپنے ملک کی خدمت کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

یہ وطن ہمارے بزرگوں نے حاصل کیا تھا کہ مسلمان اسلام کے اصولوں پر چلتے ہوئے مل جل کر اپنی حالت بہتر بنائیں ۔ اللہ بہتر جانتا ہے کہ ہم مسلمان ہیں یا نہیں البتہ پاکستانی نہیں بنے ۔ کوئی سندھی ہے کوئی پنجابی کوئی بلوچ کوئی پختون کوئی سرائیکی کوئی پاکستان میں پیدا ہو کر مہاجر ۔ کوئی سردار کوئی ملک کوئی خان کوئی وڈیرہ کوئی پیر ۔ اس کے علاوہ ہم ان گنت ذاتوں اور برادریوں میں بٹے ہوئے ۔

بڑے بڑے روشن خیال بھی پیدا ہو گئے ہیں جو قائد اعظم کی 11 اگست 1947 کی تقریر کا صرف ایک فقرہ سیاق وسباق سے علیحدہ کر کے کہتے ہیں کہ قائد اعظم نے پاکستان کو ایک اسلامی نہیں سیکولر ریاست بنایا تھا ۔ ان روشن خیالوں سے کوئی پوچھے کہ کیا قائد اعظم نے یہ بھی فرمایا تھا کہ ان کی باقی ساری تقریریں اور اقوال بھول جائیں ؟ ایک نعرہ جو تحریک پاکستان کا لازمی جزو تھا وہ بھی ان روشن خیالوں نے کہیں نہیں پڑھا ؟ پاکستان کا مطلب کیا لا الہ الا اللہ

قائداعظم 1942 میں الہ آباد میں تھے تو وکلاء کے ایک وفد کی ملاقات کے دوران ایک وکیل نے پوچھا کہ پاکستان کا دستور کیسا ہوگا اور کیا آپ پاکستان کا دستور بنائیں گے ؟ قائداعظم نے جواب میں فرمایا کہ پاکستان کا دستور بنانے والا میں کون ہوتا ہوں ۔ پاکستان کا دستور تو تیرہ سو برس پہلے بن گیا تھا ۔

قائداعظم کی 11 اگست 1947 کا خطاب رسول اکرم صل اللہ علیہ و سلم کے خطبہ الوداع کے ان الفاظ کی غمازی کرتا محسوس ہوتا ہے ۔ تمام انسان آدم اور حوا سے ہیں ۔ کسی عربی کو کسی عجمی پر کوئی برتری حاصل نہیں اور نہ کسی عجمی کو کسی عربی پر ۔ نہ کسی گورے کو کسی کالے پر کوئی برتری حاصل ہے اور نہ کسی کالے کو کسی گورے پر ۔ سوائے اس کے کہ کوئی پرہیزگاری اور اچھے عمل کی وجہ سے بہتر ہو ۔

گیارہ اگست 1947 کی تقریر سے متعلقہ اقتباس ۔

Now, if we want to make this great State of Pakistan happy and prosperous we should wholly and solely concentrate on the well being of the people, and especially of the masses and the poor. If you will work in co-operation, forgetting the past, burying the hatchet, you are bound to succeed. If you change your past and work together in a spirit that everyone of you, no matter to what community he belongs, no matter what relations he had with you in the past, no matter what is his color, caste or creed, is first, second and last a citizen of this State with equal rights, privileges and obligations, there will be no end to the progress you will make.

I cannot emphasize it too much. We should begin to work in that spirit and in course of time all these angularities of the majority and minority communities, the Hindu community and the Muslim community – because even as regards Muslims you have Pathans, Punjabis, Shias, Sunnis and so on and among the Hindus you have Brahmins, Vashnavas, Khatris, also Bengalees, Madrasis, and so on – will vanish. Indeed if you ask me this has been the biggest hindrance in the way of India to attain the freedom and independence and but for this we would have been free peoples long long ago. No power can hold another nation, and specially a nation of 400 million souls in subjection; nobody could have conquered you, and even if it had happened, nobody could have continued its hold on you for any length of time but for this. Therefore, we must learn a lesson from this. You are free; you are free to go to your temples, you are free to go to your mosques or to any other place of worship in this State of Pakistan. You may belong to any religion or caste or creed – that has nothing to do with the business of the State. As you know, history shows that in England conditions, some time ago, were much worse than those prevailing in India today. The Roman Catholics and the Protestants persecuted each other. Even now there are some State in existence where there are discriminations made and bars imposed against a particular class. Thank God, we are not starting in those days. We are starting in the days when there is no discrimination, no distinction between one community and another, no discrimination between one caste or creed and another. We are starting with this fundamental principle that we are all citizens and equal citizens of one State.

قائداعظم کی دو مزید تقریروں سے اقتباس ۔

Eid-ul-Fitr Message to the Nation on 18th August, 1947


This is our first Eid immediately following in the heralding of free independent Sovereign Pakistan having been established. This day of rejoicing throughout the Muslim world so aptly comes immediately in the wake of our national state being established, and therefore, it is a matter of special significance and happiness to us all. I wish on this auspicious day a very happy Eid to all Muslims wherever they may be throughout the world —an Eid that will usher in, I hope, a new era of prosperity and will mark the onward march of renaissance of Islamic culture and ideals. I fervently pray that God Almighty make us all worthy of our past and hoary history and give us strength-to make Pakistan truly a great nation amongst all the nations of the world.

Eid-ul-Azha Message to the Nation, on 24th October, 1947

God often tests and tries those whom he loves. He called upon Prophet Ibrahim to sacrifice the object he loved most. Ibrahim answered the call and offered to sacrifice his son. Today too, God is testing and trying the Muslims of Pakistan and India. He has demanded great sacrifices from us. Our new-born State is bleeding from wounds inflicted by our enemies. Our Muslim brethren in India are being victimized and oppressed as Muslims for their help and sympathy for the establishment of Pakistan. Dark clouds surround us on all sides for the moment but we are not daunted, for I am sure, if we show the same spirit of sacrifice as was shown by Ibrahim, God would rend the clouds and shower on us His blessing as He did on Ibrahim. Let us, therefore, on the day of Eid-ul-Azha which symbolizes the spirit of sacrifice enjoined by Islam, resolve that we shall not be deterred from our objective of creating a State of our own concept by any amount of sacrifice, trials or tribulations which may lie ahead of us and that we shall bend all our energies and resources to achieve our goal. I am confident that in spite of its magnitude, we shall overcome this grave crisis as we have in our long history surmounted many others and notwithstanding the efforts of our enemies, we shall emerge triumphant and strong from the dark night of suffering and show the world that the State exists not for life but for good life.

آج میں بلاگنگ نہیں کروں گا ۔


آج کا دن صرف اور صرف پیاری پیاری مشل کے لئے مخصوص و محفوظ ہے ۔

Our Dear Dear Michelle
We long for you so much

مشل ہماری پیاری پیاری ننھی سی پوتی جو طبعی طور پر ہم سے بارہ ہزار کلو میٹر سے زیادہ دور اٹلانٹا میں ہے مگر ہر دم ہمارے پاس ہمارے دلوں میں دماغوں میں آنکھوں میں موجود ہے ۔ ہمارے تخیّل میں ہمارے ساتھ کھیلتی اور اپنی کوڈڈ زبان میں باتیں کرتی ہے ۔ کبھی مسکراتی کبھی کھلکھلا کر ہنستی کبھی ہمیں چھیڑتی ہے ۔آج ہماری پیاری پیاری مشل ماشاءاللہ ایک سال کی ہو گئی ہے ۔
مشل ۔ دادی کا دل دادا کی جان ۔
جیو ہز ا ر و ں سال
سال کے دن ہوں پچاس ہزار

آج ہم بہت خوش بھی ہیں اور اداس بھی ۔ آج اپنی پیاری پوتی کے لئے لاکھوں اچھی اچھی دعائیں دل کی گہرائیوں سے نکل رہی ہیں اور امریکی ویزہ آفیسر عورت کے
لئے کچھ بددعائیں بھی وہ عورت جس کا ہر فقرہ حقارت آمیز اور بدتمیزی سے بھرپور تھا ۔ اور جس نے ہم دونوں کو فیس وصول کر کے ویزا دینے سے انکار کر دیا اور ہم اپنی پہلی پوتی کو آج تک سینے سے نہیں لگا سکے ۔

یہاں کلک کر کے دیکھئے میرے بیٹے زکریا کی تحریر اور میرا تبصرہ

مشل کے دادی اور دادا

دانیال صاحب کا استفسار ۔ دوسری قسط

دانیال صاحب کا مدرسوں کے بارے سوال ۔ ۔ لیکن وہاں کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے؟
دانیال صاحب کا ہر سوال ایک طویل جواب مانگتا ہے ۔ میں صرف اپنے چشم دید کچھ واقعات اور ان سے مرتب ہونے والے خیالات بیان کرنے کی کوشش کروں گا ۔ اللہ سبحانہ و تعالی مجھے توفیق عطا فرمائے ۔ پہلے اپنے سائنسدانی سکولوں میں دینیات کا حال ۔

ہمارے سکول
چھٹی اور ساتویں جماعت میں ہمارے جو استاد تھے وہ دینی مدرسہ سے پڑھے ہوئے نہیں تھے ۔ ایک لڑکے کو کہتے پڑھو ۔ وہ کھڑا ہو کر دوسرے پارہ کی بلند آواز سے تلاوت شروع کر دیتا ۔ تھوڑی دیر بعد استاد کہیں چلے جاتے اور طلباء اپنی مرضی سے پڑھتے رہتے ۔ دو سال ہم صرف دوسرا پارہ پڑھتے رہے ۔ آٹھویں جماعت میں میں دوسرے سکول چلا گیا ۔ وہاں کے استاد بھی کسی مدرسہ کے پڑھے ہوئے نہیں تھے ۔ وہ کسی لڑکے کو پڑھنے کا کہہ کر خود کرسی پر دونوں پاؤں رکھ کر اکڑوں سو جاتے ۔ لڑکوں کے شور سے جاگ جاتے تو جو سامنے ہوتا اس کی پٹائی ہو جاتی ۔ ایک دن ایک لڑکا نیکر پہن کر آگیا ۔ استاد اسے شیطان کا بچہ شیطان کا بچہ کہتے گئے اور چھڑی سے پٹائی کرتے گئے ۔ اس کی ٹانگوں پر نیل پڑ گئے ۔ وہ کمشنر کا بیٹا تھا اس لئے استاد کی چھٹی ہو گئی ۔

پھر مولوی عبدالحکیم صاحب کو کنٹریکٹ پر رکھا گیا ۔ وہ مدرسہ حقانیہ اکوڑہ خٹک کے فارغ التحصیل تھے اور راولپنڈی کی تین بڑی مساجد میں سے ایک کے خطیب تھے ۔ انہوں نے نویں جماعت میں سلیبس کے علاوہ ہمیں اچھا انسان بننے کے اصول بھی قرآن اور سنّت کی روشنی میں بڑی اچھی طرح سمجھائے ۔ ایک دن پڑھانے کے دوران ایک لڑکا شرارتیں کر رہا تھا ۔ دو بار منع کرنے پر بھی منع نہ ہوا تو مولوی صاحب نے اس کی پٹائی کر دی ۔ اگلے دن کلاس میں مولوی صاحب نے اس لڑکے کے پاس جا کر کہا بیٹا غصہ انسان کو پاگل کر دیتا ہے اسی لئے حرام ہے ۔ مجھے غصہ آگیا تھا اور میں نے آپ کی پٹائی کر دی مجھے معاف کر دو ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب 1970 کے الیکشن میں راولپنڈی سے ایم این اے منتخب ہوئے تھے ۔ مولوی عبدالحکیم صاحب نے سکول کے ایک خلاف اسلام فنکشن میں شامل ہونے سے انکار کر دیا چنانچہ ایک سال بعد ان کی چھٹی ہو گئی ۔

دسویں جماعت میں جو صاحب اسلامیات کے استاد مقرر ہوئے انہوں نے ہمیں اسلامیات بالکل نہیں پڑھائی صرف شعر سناتے رہے اور کبھی کبھی افسانے ۔ موصوف مولوی نہیں شاعر تھے ۔ چھوٹی سی داڑھی رکھی تھی شائد اسی لئے اسلامیات کے استاد بنا دیئے گئے ۔ ارباب اختیار سے اپنی پریشانی کا اظہار کیا تو بتایا گیا ۔ فکر کی ضرورت نہیں اسلامیات کا امتحان نہیں ہو گا ۔

میں نے 1983 میں بوائے آرٹیزن کے لئے 1200 فرسٹ ڈویژن میٹرک پاس امیدواروں کا انٹر ویو لیا ۔ ہر امیدوار سے انگریزی ۔ حساب اور اسلامیات کے سوال پوچھے ۔ سوائے دو تین کے کسی کو معلوم نہیں تھا کہ خلفائے راشدین کیا ہوتا ہے ۔ اکثر لڑکوں کو نماز کا صحیح طریقہ معلوم نہ تھا ۔ ایک امیدوار نے اسلامیات کے سوالوں کے فرفر جواب دیئے ۔ میں نے مزید سوال پوچھے اس نے صحیح جواب دیئے ۔ ایڈمن آفیسر نے بتایا کہ یہ لڑکا عیسائی ہے تو میں نے پوچھا کہ آپ عیسائی ہوتے ہوئے اسلامیات پڑھتے ہیں ؟ کہنے لگا بائبل کا کورس بہت زیادہ ہے ۔ اسلامیات کی چھوٹی سی کتاب ہے اس لئے میں نے اسلامیات لی ۔ بارہ دن میں انٹرویو ختم ہوئے تو لیبر یونین کے صدر جو سیّد ۔۔۔ شاہ تھے میرے پاس آئے اور کہا سر آپ ظلم کر رہے ہیں اسلامیات نہ کوئی پڑھتا ہے نہ کوئی پڑھاتا ہے ۔ میٹرک میں اسلامیات میں فیل ہونے کے باوجود لڑکے پاس کئے جاتے ہیں ۔ کوئی سائنس وائنس کی بات کریں ۔

مدرسے
میں پچھلے چالیس سالوں میں لاہور ۔ کراچی ۔ اکوڑہ خٹک ۔ راولپنڈی اور اسلام آباد میں کئی مدرسوں میں معلومات کی خاطر گیا ۔ سب مدرسوں میں زیادہ تر طلباء ایسے ہوتے ہیں جن کے پاس اپنا پیٹ پالنے کا بھی کوئی ذریعہ نہیں ہوتا اور ان کی تعلیم کے علاوہ کھانے اور کپڑوں کا خرچ بھی مدرسہ کے ذمہ ہوتا ہے ۔سب مدرسے لوگوں کی مالی امداد سے چلتے ہیں ۔ میں مدرسوں کو دو قسموں میں تقسیم کرتا ہوں ۔

اول ۔ رجسٹرڈ مدرسے جن میں سے کئی عرصہ دراز سے قائم ہیں ۔ ان مدرسوں میں تعلیم اور امتحانی نظام ہمارے سرکاری سکولوں اور بورڈوں سے بہتر ہے ۔ وہاں کوئی نقل نہیں ہوتی اور نہ کوئی سفارش یا رشوت سے پاس ہوتا ہے ۔ جو پاس ہوتے ہیں وہ اس کے اہل ہوتے ہیں ۔ میں کم از کم دو ایسے اشخاص کو ذاتی طور پر جانتا ہوں جنہوں نے اپنے باپوں کے مدرسوں سے گریجوایشن کی بنیاد پر برطانیہ سے پی ایچ ڈی کی ڈگریاں حاصل کیں ۔ ان مدرسوں میں ہمیشہ سے غیر ملکی طلباء دینی تعلیم حاصل کرنے آتے ہیں ۔ مدرسوں میں دین کے علاوہ کچھ اسلامی تاریخ بھی پڑھائی جاتی ہے ۔ کچھ مدرسے ایسے ہیں جہاں دوسرے مضامین بھی پڑھائے جاتے ہیں ۔ یعنی حساب سائنس تاریخ جغرافیہ وغیرہ ۔ زیادہ تر رجسٹرڈ مدرسوں کے منتظم چندہ مانگنے نہیں جاتے لوگ از خود امداد کرتے رہتے ہیں ۔

دوم ۔ غیر رجسٹرڈ مدرسے ۔ یہ چھوٹے چھوٹے مدرسے ہیں اور عام طور پر مساجد کے اندر یا ان کے ساتھ ہیں ۔ یہ زیادہ تر صرف قرآن شریف پڑھاتے ہیں اور کچھ مدرسے حفظ بھی کراتے ہیں ۔ ان مدرسوں میں گرد و نواح کے بچوں کے علاوہ یتیم اور غریب بچے بھی ہوتے ہیں ۔ ان مدرسوں میں کچھ ایسے ہیں جن کے ارباب اختیار تنگ نظر ہیں ۔ ان مدرسون کی اصلاح کی فوری ضرورت ہے مگر امریکی ایجنڈا کی بجائے پاکستانی ایجنڈا کے مطابق ۔

دانیال صاحب کا استفسار ۔ پہلی قسط

دانیال صاحب نے لکھا ہے ۔

میں دینی مدارس پر پابندیوں کے خلاف ہوں۔ ہمارے ملک میں پہلے ہی تعلیم کی کمی ہے اور مدارس اس ضمن میں بڑے معاون ثابت ہوسکتے ہیں۔ میں اس بات کے بھی خلاف ہوں کہ مساجد حکومت کنٹرول کرے اور اپنی مرضی کے خطبات نشر کروائے۔ پاکستان کے مدارس میں یقینا دہشت گردی کی تعلیم نہیں دی جاتی۔ لیکن وہاں کس طرح کی تعلیم دی جاتی ہے؟ کیا یہ بات صحیح نہیں کہ ہمارے مدارس کے طلباء اسامہ بن لادن کو ہیرو سمجھتے ہیں؟ اور ایسا کیوں ہے کہ دہشت گردی کے خلاف ہونے والی تحقیقات کی تان پاکستان پر آکر ٹوٹتی ہے؟ کیا یہ بات بھی صحیح نہیں کہ چیچنیا، کشمیر اور افغانستان میں جاری جہاد کا پاکستانی مدارس سے کچھ تعلق ہے؟ کیا مدارس کے نظام میں بہتری کی گنجائش ہے؟ اور اگر ہے تو وہ بہتری کس قسم کی ہونی چاہئیے؟ اور ایک اور اہم سوال پاکستان کے عوام کو دہشت گردی اور جہاد میں کس طرح فرق کرنا چاہئیے؟دانیال صاحب بالکل ٹھیک کہتے ہیں کہ مدرسوں اور مسجدوں پر پابندی نہیں ہونا چاہیئے اور نہ یہ حکومت کے کنٹرول میں ہونا چاہئیں ۔ ورنہ وہی ہو گا جو ترکی میں ہوا ۔ جن کا اب یہ حال ہے کہ نہ خدا ہی ملا نہ وصال صنم ۔ نہ ادھر کے رہے نہ ادھر کے رہے ۔ مارچ 1924 میں مصطفے کمال پاشا نے سلطنت عثمانیہ کو ختم کر کے سیکولر حکومت قائم کی ۔ کسی کا عربی لباس پہننا ۔ عورتوں کا سر کو ڈھانپنا ۔ عربی زبان میں قرآن اور نماز پڑھنا اور اسلام یا اسلامی معاشرہ کا نام لینا ممنوع قرار دیا اور یورپین لباس کو قومی لباس قرار دیا گیا ۔ مسجدیں حکومت نے اپنے کنٹرول میں لے لیں اور سرکاری امام مقرر کئے جو نماز ترکی زبان میں پڑھاتے اور نماز کے وقت کے علاوہ مسجدوں پر تالے رہتے ۔ ان اقدامات کو مصطفے کمال پاشا نے ترقی کی نشانی کہا اور یورپین بننے کا دعوی کیا ۔ آج 80 سال بعد بھی ترکی یورپینوں کا باجگذار تو ہے مگر یورپی یونین میں شامل نہیں ہو سکا جبکہ ماضی قریب میں روس سے آزاد ہونے والی مشرقی یورپ کی کئی ریاستیں یورپین یونین کا حصہ بن چکی ہیں

پاکستانی مدرسوں کا غریب بچوں کو پڑھانے میں بہت بڑا کردار ہے بلکہ ہم لوگ جو اسلام کے متعلق تھوڑا بہت علم رکھتے ہیں وہ ان مدرسوں کے پڑھے ہوئے علماء کی وجہ سے ہے ۔ دانیال صاحب نے تو اپنے عمدہ دماغ کی سوچ تحریر کی ہے ۔ ميں اس کا آئینی پہلو اجاگر کرنے کی کوشش کروں گا ۔ تمام دینی اور مذہبی مدرسوں یا سکولوں کو آئینی تحفظ حاصل ہے چاہے وہ رجسٹرڈ ہوں یا نہ ہوں ۔ ان مدرسوں کے تعلیمی کام یا نظام میں حکومت کی طرف سے مداخلت پاکستان کے آئین کی خلاف ورزی ہے ۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سپریم کورٹ نے چند دن قبل آئین کی جن شقوں کی بنیاد پر حسبہ ایکٹ کی پانچ شقوں کی انیس ذیلی شقوں کو آئین کے خلاف قرار دیا ہے ۔ حکومت مدرسوں کے معاملات میں دخل اندازی کر کے اور مدرسوں کی انتظامیہ کو مختلف حکم دے کر آئین کی ان ہی شقوں کی مکمل خلاف ورزی کر رہی ہے ۔ ملاحظہ ہو ۔ ۔ ۔

Chapter 1. FUNDAMENTAL RIGHTS

20. Subject to law public order and morality:-
(a) every citizen shall have the right to profess, practice and propagate his religion; and
(b) every religious denomination and every sect thereof shall have the right to establish, maintain and manage its religious institutions.

22.
(1) No person attending any educational institution shall be required to receive religious instruction, or take part in any religious ceremony, or attend religious worship, if such instruction, ceremony or worship relates to a religion other than his own.
(2) In respect of any religious institution, there shall be no discrimination against any community in the granting of exemption or concession in relation to taxation.
(3) Subject to law:
(a) no religious community or denomination shall be prevented from providing religious instruction for pupils of that community or denomination in any educational institution maintained wholly by that community or denomination; and
(b) no citizen shall be denied admission to any educational institution receiving aid from public revenues on the ground only of race, religion, caste or place of birth.

مندرجہ بالا شقیں 1956 کے آئین اور 1962 کے آئین میں بھی موجود تھیں ۔

انّا للہ و انّا الیہ راجعون

السلام علیکم

میں بڑے دکھ کے ساتھ سب ساتھیوں کو مطلع کرتا ہوں کہ ہمارے ایک ساتھی جہانزیب اشرف صاحب کے جوان انکل آج صبح پاکستان میں تقریبا ساڑھے دس بجے اچانک وفات پا گئے ۔ انّا للہ و انّا الیہ راجعون ۔ آئیے سب مل کر دعا کريں کہ اللہ ان کی مغفرت کرے اور جنت میں مقام عطا فرمائے اور ان کے لواحقین کو صبر اور یہ صدمہ برداشت کرنے کا حوصلہ عطا فرمائے آمین ثم آمین ۔

آج کے دن


آج کے دن کم از کم مندرجہ ذیل اہم واقعات وقوع پذیر ہوئے ۔انسانیت سے دوستی کا ڈنڈورہ پیٹنے والے امریکہ نے ہروشیما کی شہری آبادی پر ایٹم بم گرایا جس سے دو لاکھ پچپن ہزار کی آبادی میں سے چھیاسٹھ ہزار انسان ہلاک اور انہتر ہزار زخمی ہوئے ۔ یعنی 26 فیصد مر گئے اور مزید 27 فیصد زخمی ہوئے ۔ صرف 47 فیصد بچے ۔ زخمیوں میں سے بہت سے اپاہج ہو گئے ۔

پی آئی اے کی قاہرہ مصر کے لئے پہلی آزمائشی پرواز نمعلوم وجوہات کی بناء پر قاہرہ کے قریب صحرا میں گر کر تباہ ہو گئی اور دو سو کے قریب لوگ ہلاک ہو گئے ۔

پی آئی اے کا فوکر فرینڈشپ طیارہ راولپنڈی سے لاہور جاتے ہوئے روات کے قریب گر کر تباہ ہو گیا اور پچیس لوگ ہلاک ہو گئے ۔

ہر سال ایڈنبرا فیسٹیول کے نام پر پرنس نائٹ منائی جاتی ہے ۔

میں زوڈیاک سائینز میں یقین نہیں رکھتا لیکن جو اس کا شوق رکھتے ہیں ان کے لئے لکھ دیتا ہوں کہ چھ اگست کے لئے زوڈیآک سائین اسد یا لیو ہے اور اس کے ساتھ لکھا ہے ۔

Warm, generous, open spirit; strong leaders, readily noticed whenever they enter a room; enjoy being center stage; regal appearance and often a dramatic personality; strong pride and occasionally arrogant; susceptible to flattery and easily embarrassed; good follow-through, will see a project to its conclusion; often artistic and creative; natural understanding of children; loyal and ardent lovers; may make fun of themselves, but won’t appreciate others doing so.

آج کے دن جموں شہر میں ایک بچہ پیدا ہوا جس کا نام کسی حساب دان نے اس کی پیدائش کے سال کی بنیاد پر افتخار اجمل رکھا ۔