Daily Archives: August 28, 2005

دانیال صاحب کا استفسار ۔ چھٹی قسط

دانیال صاحب مزید پوچھتے ہیں ۔ کیا مدارس کے نظام میں بہتری کی گنجائش ہے؟ اور اگر ہے تو وہ بہتری کس قسم کی ہونی چاہیئے؟

خوب سے خوب تر کی تلاش نہ کی جائے تو ترقی تو کیا انسان رو بہ تنزل ہو جاتا ہے ۔ سب سے پہلے سکولوں ۔ کالجوں اور یونیورسٹیوں میں دینی تعلیم کو فعال بنا کر کم از کم دوسرے مضامین کے ہم پلّہ بنانا چاہیئے ۔ایک بات ذہن میں رہنا چاہیئے کہ دینی مدرسوں کا آزاد ہونا اشد ضروری ہے ورنہ جو حکومت آئے گی وہ اپنی پسند کا اسلام مدرسوں میں نافذ کر دے گی اور مدرسوں کا فائدہ ہونے کی بجائے مدرسے زحمت بن جائیں گے ۔ مزید مدرسوں کے خلاف معاندانہ پروپیگنڈہ جگ ہنسائی اور اپنے آپ کو گالی دینے سے کم نہیں ہے اس لئے یہ بند ہونا چاہیئے ۔

دین اسلام کی اعلی تعلیم رکھنے والے باعمل سکالرز کی ایک کمیٹی بنانا چاہیئے جو مدرسوں کے سلیبس اور سہولتوں کا مطالع کر کے سفارشات تیار کرے ۔ ان سفارشات پر عمل کرنے کے لئے فنڈز مہیا کئے جائیں اور اسی کمیٹی کی نگرانی میں ان پر عمل کیا جائے ۔ فوری طور پر دینی مدرسوں کو مناسب تعداد میں کمپوٹر مہیا کئے جائیں اور مدرسوں کے اساتذہ کو کمپیوٹر کا استعمال سکھایا جائے ۔ ان کمپیوٹروں پر طلباء قرآن شریف ۔ حدیث اور فقہ کے علاوہ عام استعمال ہونے والی سافٹ ویئر میں بھی دسترس حاصل کریں ۔ ان طلباء کو دین کے مکمل کورس کے ساتھ ساتھ ان کی استداد اور خواہش کے مطابق دوسرے علوم بھی پڑھائے جائیں یعنی انگریزی ۔ فارسی ۔ ریاضی ۔ معاشیات ۔ معاشرتی علوم ۔ طبیعات ۔ کیمیات وغیرہ ۔

مدرسوں کو اس قابل بنایا جائے کہ عام سکولوں اور کالجوں سے تعلم حاصل کرنے کے بعد جو لوگ چاہیں ان مدرسوں میں پڑھ کر مزید دینی تعلیم حاصل کر سکیں ۔ ان مدرسوں میں ہمہ وقتی اور جزوقتی کورس بھی ہونے چاہیئں تا کہ شام کے وقت وہ لوگ دینی تعلیم حاصل کر سکیں جو دن کے وقت ملازمت کرتے ہیں یا دوسرے سکولوں یا کالجوں میں تعلیم حاصل کرتے ہیں ۔ دینی مدرسوں کی مجبوری وسائل کی کمی ہے ۔ نہ صرف مالی بلکہ افرادی بھی ۔اس لئے اس تبدیلی کے لئے اور تبدیلی کے بعد کافی مالی اور افرادی وسائل کی ضرورت ہوگی جس کے بغیر کچھ بھی نہیں ہو سکتا ۔اگر حکومت غریبوں کی واقعی خیر خواہ ہے تو ہر مسجد کے امام اور مؤذن کے لئے مدرسہ کی ڈگری اور سرٹیفیکیٹ لازمی کر دے اور تمام سکولوں میں اسلامیات پڑھانے والوں کے لئے مدرسہ کی ڈگری لازمی کر دے اور ان کو باقی اساتذہ کے برابر تنخوا دی جائے ۔ اس طرح جاہل اماموں ۔ تعویز دھاگے اور قبروں کے پوجنے سے نجات حاصل ہو جائے گی اور ہماری اگلی نسل اسلام کو صحیح طرح سمجھ سکے گی ۔

کبھی ہم نے غور کیا کہ ہم اپنے بچے کو قرآن شریف پڑھانے والے کو کیا مشاہرہ دیتے ہیں اور انگریزی یا سائنس یا حساب پڑھانے والے کو کیا مشاہرہ دیتے ہیں ۔ بیس سال قبل میں نے اپنے بیٹے کو قرآن شریف پڑھانے کے لئے ایک قاری صاحب سے بات کی ۔ مشاہرہ انہوں نے نہ مانگا مگر میں نے اپنی مرضی سے انہیں ایک سو روپیہ ماہوار دینا شروع کیا ۔ جن صاحب کی معرفت میں ان قاری صاحب تک پنہچا تھا پوچھنے لگے کہ آپ قاری صاحب کو کیا دیں گے ؟ میں نے بتایا تو کہنے لگے اتنے زیادہ کیوں دے رہے ہیں سائنس یا انگلش تو نہیں پڑھانی انہوں نے ۔

مدرسوں میں سائنس وغیرہ پڑھانا حکومت کا محظ ایک ڈھکوسلہ ہے ۔ اس کے لئے کروڑوں نہیں اربوں روپیہ سالانہ درکار ہے ۔ ہماری حکومت جو منافع بخش ادارے بیچ کر اور قرضے لے کر اپنا خرچ پورا کر رہی ہے وہ مزید روپیہ کہاں سے لائے گی ۔ دیگر کیا پاکستان میں تمام طلباء و طالبات کو سائنس پڑھائی جاتی ہے ؟ کمال تو یہ ہے کہ سائنس کی تعلیم کا انتظام بہت سے سکولوں اور کئی کالجوں میں ابھی تک نہیں ہے اور جن میں ہے ان میں سے بھی آدھے ایسے ہیں جہاں مناسب بندوبست نہیں ہے ۔ ایک جملہ معترضہ ۔ اگر مدرسوں سے پڑھے ہوؤں کو نہ گنا جائے تو پاکستان میں لٹریسی کی کیا شرح رہ جائے گی ؟ 20 فیصد یا اس سے بھی کم ؟ماضی کا تجربہ بھی کچھ حوصلہ افزا نہیں ۔ ذوالفقار علی بھٹو صاحب نے تعلیم کا معیار بلند کرنے کے نام پر نجی شعبہ میں اچھے خاصے چلتے ہوئے تعلیمی ادارے یہ کہہ کر قومیا لئے تھے کہ ان کے اساتذہ کے پاس معلمین کی ڈگریاں نہیں ۔ اس طرح بہت سے سکول بند ہو گئے اور جو بچ گئے ان کا جو حشر ہوا وہ آج ہمارے سامنے ہے ۔ وہ تو پھر بھی آسان کام تھا جو حکومت نہ کر سکی ۔ دینی مدارس کو صرف دینی خدمت کی امنگ رکھنے والے ہی چلا سکتے ہیں اور ایسا شائد ہی کوئی ایوان حکومت میں ملے ۔

۔باقی انشاء اللہ آئیندہ