ہم خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا ؟ ؟ ؟

ملاحظہ ہو ہمارے روشن خیال حکمرانوں کے اقوال کی سچائی اور ان کا آنے والا روشن خیال تعلیمی نظام ۔
جب شور ہوا تھا کہ بیکن ہاؤس کے سکولوں میں عریاں جنسی سوالنامہ مڈل سکول کے بچوں اور بچیوں میں تقسیم کیا گیا ہے تو ہماری ہمیشہ صحیح اور سچی موجودہ حکومت نے قرار دیا تھا کہ ایسا کچھ نہیں ہوا یہ دشمن یعنی اپوزیشن کا جھوٹا پراپیگنڈہ ہے بالخصوص دقیانوس اور جاہل ملّاؤں کا ۔ حکومتی اہلکاروں نے یہ بھی اعلان کیا تھا کہ آغاخان بورڈ صرف امتحان لےگا اور سلیبس کے ساتھ اس کا کوئی تعلق نہیں ۔

کسی نے سچ کہا ہے سچائی چھپ نہیں سکتی بناوٹ کے اصولوں سے ۔آغا خان یونیورسٹی کی ڈائریکٹر پبلک ریلیشنز طلعت طیّب جی کے مطابق متذکّرہ بالا سوالنامہ سکولوں میں تقسیم کیا گیا تھا ۔ مزید طلعت طیّب جی کے مطابق آغا خان بورڈ ایک ایسا نظام دینے کی کوشش کر رہا ہے جس سے طالب علموں کو سیکھنے اور تخلیقی صلاحیتوں کو اجاگر کرنے کے مواقع حاصل ہوں ۔طلعت طیّب جی نے یہ بھی لکھا ہے کہ اردو کے سلیبس کی 32 کہانیوں میں سے عریاں جنسی کہانیاں جیسے پچھم سے چلی پروا اور سعادت حسن منٹو کی کھول دو سمیت سات کہانیاں استانیوں اور استادوں کے احتجاج کے بعد نکال دی گئی ہیں ۔

صورت حال یہ ہے کہ حکومت کے بڑے بڑے اہلکاروں نے سراسر جھوٹ پر جھوٹ بولے ۔ ثابت ہو گیا کہ عریاں جنسی سوالنامہ تقسیم کیا گیا تھا اور بارہویں جماعت تک سلیبس اور تعلیمی نظام بھی آغاخان بورڈ کے سپرد ہے ۔

والدین کے مطابق بقیہ 25 کہانیوں میں سے بھی زیادہ تر محظ عریاں جنسی یعنی پورنو ہیں ۔

کہانیاں صرف اردو کے سلیبس میں شامل کی گئی ہیں اور وہ زیادہ تر عریاں جنسی یعنی پورنو ہیں ۔ انگریزی کے سلیبس میں کوئی کہانی شامل نہیں ۔ کیا اس کا یہ مطلب نہیں کہ اس بات کو یقینی بنایا جا رہا ہے کہ سب کمسن طلباء اور طالبات کے دماغ کو پراگندہ کیا جائے کیونکہ آغا خان بورڈ کے خیال میں سب بچے شائد انگریزی نہ سمجھ سکیں اور جنسی عریانی سے بچ جائیں اسلئے کہانیاں صرف اردو میں رکھی گئی ہیں جو کہ عریاں جنسی یعنی پورنو ہیں ۔

تفصیل پڑھنے کی لئے یہاں کلک کیجئے اور پڑھئے برگیڈیئر ریٹائرڈ شمس الحق قاضی کا لکھا ہوا اسماعیلی آغاخانی وضاحتیں

This entry was posted in روز و شب on by .

About افتخار اجمل بھوپال

رہائش ۔ اسلام آباد ۔ پاکستان ۔ ۔ ۔ ریاست جموں کشمیر کے شہر جموں میں پیدا ہوا ۔ پاکستان بننے کے بعد ہجرت پر مجبور کئے گئے تو پاکستان آئے ۔انجنئرنگ کالج لاہور سے بی ایس سی انجنئرنگ پاس کی اور روزی کمانے میں لگ گیا۔ ملازمت کے دوران اللہ نے قومی اہمیت کے کئی منصوبے میرے ہاتھوں تکمیل کو پہنچائے اور کئی ملکوں کی سیر کرائی جہاں کے باشندوں کی عادات کے مطالعہ کا موقع ملا۔ روابط میں "میں جموں کشمیر میں" پر کلِک کر کے پڑھئے میرے اور ریاست جموں کشمیر کے متعلق حقائق جو پہلے آپ کے علم میں شائد ہی آئے ہوں گے ۔ ۔ ۔ دلچسپیاں ۔ مطالعہ ۔ مضمون نویسی ۔ خدمتِ انسانیت ۔ ویب گردی ۔ ۔ ۔ پسندیدہ کُتب ۔ بانگ درا ۔ ضرب کلِیم ۔ بال جبریل ۔ گلستان سعدی ۔ تاریخی کُتب ۔ دینی کتب ۔ سائنسی ریسرچ کی تحریریں ۔ مُہمْات کا حال

5 thoughts on “ہم خوشی سے مر نہ جاتے گر اعتبار ہوتا ؟ ؟ ؟

  1. اجمل

    Wisesabre
    ہاتھ پہ ہاتھ رکھ کر تو کبھی بھی نہیں بیٹھنا چاہیئے ۔ لوگوں کے ساتھ وہی طریقہ اپنانا چاہیئے جو انہیں پسند ہو ۔ انٹرنیٹ موزوں ہے ۔ پہلا کام تو یہ کریں کہ اپنے تمام ان دوستوں کو جن کے پاس انٹرنیٹ ہے ای میل میں اپنے اور میرے بلاگز کے یو آر ایل لکھ کر بھیجیں اور کہیں کہ وہ آپ کا بلاگ اور میرے بلاگ پڑیں ۔ پھر ہمخیال بلاگ والے ڈھونڈیں اور انہیں یہی کہنے کے علاوہ کہیں کہ وہ بھی دین اسلام اور پاکستان کی بہتری کے لئے لکھیں ۔ میں یہی کر رہا ہوں ۔

  2. زکریا

    قاضی کا مضمون میری سمجھ سے بالاتر ہے۔ آپ کی پوسٹ میں مڈل سکول کا ذکر ہے جبکہ نوائے وقت ہائی سکول کی بات کرتا ہے۔ پورنو کا لفظ قاضی صاحب نے بہت استعمال کیا مگر جتنا میٹو میں نے پڑھا ہے مجھے کہیں پورنو نظر نہیں آئی۔

    اسی طرح فحش سوالنامہ کی کہانی بھی پلے نہیں پڑی۔ کس چیز نے اسے فحش بنایا؟ کیا اس میں جنسی سوال تھے؟ ان کی نوعیت کیا تھی؟

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.