5.3۔دین رویّہ رواج قانون

سُبْحَانَكَ لاَ عِلْمَ لَنَا إِلاَّ مَا عَلَّمْتَنَا إِنَّكَ أَنتَ الْعَلِيمُ الْحَكِيمُ
ترجمہ : تیری ذات (ہر نقص سے) پاک ہے ہمیں کچھ علم نہیں مگر اُسی قدر جو
تُو نے ہمیں سِکھایا ہے، بیشک تُو ہی (سب کچھ) جاننے والا حکمت والا ہے
* * *

دین ۔ ہمارا رویّہ ۔ رسم و رواج اور قانون
ایک سرسری جائزہ

راقم الحروف ۔ افتخار اجمل بھوپال
فروری 2006

دین کیا ہے

دین کا مطلب ہے مسلک یعنی راستہ ۔ طریقہ ۔ دستور یا آئین ۔ چنانچہ دین اِسلام زندگی گذارنے کا ایک مکمل راستہ ۔ طریقہ ۔ دستور یا آئین ہے ۔ قرآن اور حدیث میں ہر کام کے اصول موجود ہیں ۔ مسلمان ہونے کی حیثیت میں ہمارا ہر فعل گھر ۔ بازار ۔ دفتر مسجد یا سفر ۔ کوئی جگہ بھی ہو دین کے مطابق ہونا چاہیئے مگر لوگوں نے سب کے الگ الگ طریقے اور راستے خود سے بنا لئے ہیں ۔ دین صرف صلٰوة ۔ صوم ۔ زکاة اور حج کو سمجھتے ہیں ۔ ملازمت میں پیدا کرنے والے [اللہ] کی بجاۓ اپنے آفیسر کو خوش کرتے ہیں۔ رشتہ داروں اور دوستوں سے صلہ رحمی کی بجاۓ اَدلے بَدلے کا معاملہ رکھتے ہيں ۔ کارو بار میں دیانت کی بجاۓ چالاکی کو اپناتے ہیں ۔ پھر جب ناکامی ہوتی ہے یا تکلیف پہنچتی ہے تو اس کی ذمہ داری دین پر ڈال دیتے ہیں ۔ تعجب کی بات کہ لوگ رمضان کے مہینہ میں روزے رکھتے ہیں ۔ چاہے تنہا ہوں کچھ کھاتے پیتے نہیں اور نہ کوئی بُرا یا غَلَط کام کرتے ہیں صرف اِس لئے کہ اللہ تعالٰی دیکھ رہے ہیں ۔ مجھے یہ سمجھ میں نہیں آتی کہ باقی سارا سال لوگوں کو کیوں یاد نہیں رہتا کہ اللہ دیکھ رہے ہیں اِس لئے بُرے یا غَلَط کام نہ کریں ؟

کچھ لوگ چار جماعتیں پڑھ جاتے ہیں تو دِین کو دقیانوسی اور آج کی ترقی یافتہ دنیا میں ناقابل عمل سمجھنا شروع کر دیتے ہیں جیسے [نَعُوذُ بِاللہِ مِنْ ذَالِکْ] اللہ سُبْحَانَہُ وَ تَعَالٰی کو معلوم نہ تھا کہ آئیندہ کیا ہو گا ۔ دراصل آج سے سوا چودہ صدیاں پہلے مکمل ہونے والا دین ہمیشہ کیلئے ہے اور آج بھی زندگی کے ہر شعبہ کو پوری طرح محیط کرتا ہے ۔ روزمرّہ کی زندگی سے متعلق قرآن الحکیم سے صرف چند آیات :

سلوک ۔ برتاؤ
سورۃ 2 البقرۃ آیۃ 263 ۔ ایک میٹھا بول اور کسی ناگوار بات پر ذرا سی چشم پوشی اُس خَیرات سے بہتر ہے جس کے پیچھے دکھ ہو ۔ اللہ بے نیاز ہے اور بُردباری اُس کی صِفت ہے ۔
سورۃ 4 النّسآء آیۃ 36 ۔ اور تم سب اللہ کی بندگی کرو ۔ اس کے ساتھ کسی کو شریک نہ بناؤ ۔ ماں باپ کے ساتھ نیک برتاؤ کرو ۔ قرابت داروں اور یتیموں اور مسکینوں کے ساتھ حسن سلوک سے پیش آؤ ۔ اور پڑوسی رشتہ دار سے ۔اجنبی ہمسایہ سے ۔ پہلو کے ساتھی اور مسافر سے اور ان لونڈی غلاموں سے جو تمہارے قبضہ میں ہوں احسان کا معاملہ رکھو ۔ یقین جانو ۔ اللہ کسی ایسے شخص کو پسند نہیں کرتا جو اپنے پندار میں مغرور ہو اور اپنی بڑائی پر فخر کرے ۔
سورۃ 16 النّحل آیۃ 126 ۔ اور اگر تم بدلہ لو تو اُسی قدر لے لو جس قدر تم پر زیادتی کی گئی ہو لیکن اگر صبر کرو تو یقیناً یہ صبر کرنے والوں کے حق ہی میں بہتر ہے ۔
سورۃ 25 الفرقان آیۃ 63 سے 72 کے کچھ حصّے ۔ رحمان کے بندے وہ ہیں جو زمین پر نرم چال چلتے ہیں اور جاہل ان کے منہ کو آئیں تو کہہ دیتے ہیں تم کو سلام ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ جو اللہ کی حرام کی ہوئی کسی جان کو ناحق ہلاک نہیں کرتے اور نہ زنا کے مرتکب ہوتے ہیں ۔ ۔ ۔ ۔ ۔ اور کسی لغو چیز پر ان کا گذر ہو جاۓ تو شریف آدمیوں کی طرح گذر جاتے ہيں ۔
سورۃ 28 القَصص آیۃ 54 اور 55 ۔ (جو اللہ میں یقین رکھتے ہیں) وہ برائی کو بھلائی سے دفع کرتے ہیں اور جو کچھ رزق ہم نے انہیں دیا ہے اس میں سے خرچ کرتے ہیں اور جب انہوں نے بیہودہ بات سنی تو یہ کہہ کر اس سے کنارہ کش ہو گئے “ہمارے اعمال ہمارے لئے اور تمہارے اعمال تمہارے لئے تم کو سلام ہے ہم جاہلوں کا سا طریقہ اختیار کرنا نہیں چاہتے”
سُورۃ 41 حٰم السّجدۃ ۔ آیات 34 تا 36 ۔ نیکی اور بدی برابر نہیں ہوتی برائی کو بھلائی سے دفع کرو پھر وہی جس کے اور تمہارے درمیان دشمنی ہے ایسا ہو جائے گا جیسے دلی دوست اور یہ بات انہیں نصیب ہوتی ہے جو صبر کریں اور اسے سوائے بڑے نصیبے والوں کے کوئی نہیں پا سکتا اور اگر شیطان کی طرف سے کوئی وسوسہ آئے تو اللہ کی پناہ طلب کرو . یقیناً وہ بہت ہی سننے والا جاننے والا ہے
سورۃ 61 الصّف آیۃ 2 اور 3 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ تم کیوں وہ بات کہتے ہو جو کرتے نہیں ہو ؟ اللہ کے نزدیک یہ سَخت نا پسندیدہ حرکت ہے کہ تم کہو وہ بات جو کرتے نہیں ۔

لین دین
سورۃ 17 بنی اسراء یل آیۃ 35 ۔ پیمانے سے دو تو پورا بھر کے دو اور تولو تو ٹھیک ترازو سے تولو ۔ یہ اچھا طریقہ ہے اور بلحاظ انجام بھی بہتر ہے

سورۃ 83 المُطففّین آیۃ 1 تا 3 ۔ تباہی ہے ڈنڈی مارنے والوں کے لئے جن کا حال یہ ہے کہ جب لوگوں سے لیتے ہیں تو پورا پورا لیتے ہیں اور جب ان کو ناپ کر یا تول کر دیتے ہیں تو انہیں گھاٹا دیتے ہیں ۔

معیشت
سورۃ 2 البقرۃ آیۃ 188 ۔ اور تم لوگ نہ تو آپس میں ایک دوسرے کے مال ناروا طریقہ سے کھاؤ اور نہ حاکموں کے آگے ان کو اس غرض کے لئے پیش کرو کہ تمہیں دوسروں کے مال کا کوئی حصہ قصداّ ظالمانہ طریقے سے کھانے کا موقع مل جائے ۔
سورۃ 3 آل عمران آیۃ 130 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو یہ بڑھتا اور چڑھتا سود کھانا چھوڑ دو اور اللہ سے ڈرو ۔ اُمید ہے کہ فلاح پاؤ گے ۔
سورۃ5 المآئدہ آیۃ 90 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ یہ شراب اور جوّا اور یہ آستانے اور پانسے سب گـندے شیطانی کام ہیں ۔ ان سے پرہیز کرو
سورۃ 25 الفرقان آیۃ 67 ۔ (رحمان کے بندے وہ ہیں) جو خرچ کرتے ہیں تو نہ فضول خرچی کرتے ہیں نہ بخل ۔ بلکہ ان کا خرچ دونوں اِنتہاؤں کے درمیان اعتدال پر قائم رہتا ہے ۔

فخر و تکبّر
سورۃ 31 لُقمان آیۃ 18 اور 19 ۔ اور لوگوں سے منہ پھیر کر بات نہ کر ۔ نہ زمین میں اکڑ کر چل ۔ اللہ کسی خود پسند اور فخر جتانے والے شخص کو پسند نہیں کرتا ۔ اپنی چال میں اعتدال اختیار کر اور اپنی آواز ذرا پَست رکھ ۔ سب آوازوں سے زیادہ بُری آواز گدھوں کی آواز ہوتی ہے

ٹھٹھا مذاق
سورۃ 49 الحُجُرات آیۃ 11 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ نہ مرد دوسرے مردوں کا مذاق اُڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ اور نہ عورتیں دوسری عورتوں کا مذاق اُڑائیں ۔ ہو سکتا ہے کہ وہ ان سے بہتر ہوں ۔ آپس میں ایک دوسرے پہ طعن نہ کرو اور نہ ایک دوسرے کو بُرے القاب سے یاد کرو ۔ ایمان لانے کے بعد فسق میں نام پیدا کرنا بہت بُری بات ہے ۔ جو لوگ اس روش سے باز نہ آئیں وہ ظالم ہیں ۔

انصاف ۔گواہی
سورۃ 2 البقرۃ آیۃ 42 ۔ باطل کا رنگ چڑھا کر حَق کو مشتبہ نہ بناؤ اور نہ جانتے بوجھتے حَق کو چھُپانے کی کوشش کرو ۔سورۃ 4 النّسآء آیۃ 58 ۔ اللہ تمہیں حُکم دیتا ہے کہ امانتیں اہلِ امانت کے سپرد کرو ۔ اور جب لوگوں کے درمیان فیصلہ کرو تو عدل کے ساتھ کرو ۔ اللہ تم کو نہائت عمدہ نصیحت کرتا ہے اور یقیناً اللہ سب کچھ دیکھتا اور سُنتا ہے ۔
سورۃ 4 النّسآء آیۃ 135 ۔ اے لوگو جو ایمان لاۓ ہو ۔ اِنصاف کے عَلَمبَردار اور خدا واسطے کے گواہ بنو اگرچہ تمہارے اِنصاف اور تمہاری گواہی کی زد خود تمہاری اپنی ذات پر یا تمہارے والدین اور رشتہ داروں پر ہی کیوں نہ پڑتی ہو ۔ فریق معاملہ خواہ مالدار ہو یا غریب ۔ اللہ تم سے زیادہ ان کا خیرخواہ ہے ۔ لہذا اپنی خواہش نفس کی پیروی میں عدل سے باز نہ رہو ۔ اور اگر تم نے لگی لپٹی بات کہی یا سچائی سے پہلو بچایا تو جان رکھو کہ جو کچھ تم کرتے ہو اللہ کو اس کی خبر ہے ۔
سورۃ 25 الفرقان آیۃ 72 ۔ (رحمٰن کے بندے وہ ہیں) جو جھوٹ کے گواہ نہیں بنتے

اِسلام کا نظامِ اِنصاف
اِسلام کے نظامِ اِنصاف اور مغربی قانونِ اِنصاف (جو کہ پاکستان میں بھی رائج ہے) میں ایک اہم فرق ہے وہ یہ کہ اِسلامی نظام ِ اِنصاف میں اِنصاف مہیا کرنا قاضی یعنی جج کا فرض ہوتا ہے اور اِسلامی شریعی قانون کے ماہرین اِنصاف کرنے میں جج کی مدد کرتے ہیں ۔ جبکہ مغربی قانونِ اِنصاف میں سچ جھوٹ ثابت کرنا مُدعی اور مُدعا علَیہ کی ذمہ داری ہوتی ہے ۔ جن معاملات میں پولیس کا عمل دخل ہو ان میں پولیس بھی کرتب دکھاتی ہے ۔ تاریخ سے پتہ چلتا ہے کہ جب حاکمِ وقت کسی عالِمِ دین کو مُلک کے مُنصفِ اعلٰی کا عُہدہ پیش کرتے اور عالِم کے خیال میں حاکم صرِیح مُنصف نہ ہو تا تو عالِم عہدہ قبول کرنے سے انکار کر دیتا خواہ انکار پر سزا بھگتنا پڑتی ۔ امام ابو حنیفہ کو مُنصفِ اعلٰی بننے سے انکار پر عبّاسی خلیفہ منصور نے قیدِ سخت کی سزا دی ۔ چار پانچ سال بعد امام صاحب قید ہی میں وفات پا گئے

قرآن شریف کا اَدَب

قرآن شریف کا اَدَب یہ ہے کہ ہم اسے اچھی طرح سمجھ کر اس پر صحیح طرح عمل کریں لیکن لوگ قرآن شریف کا اَدَب اِس طرح کرتے ہیں کہ اسے چُومتے ہیں آنکھوں سے لگاتے ہیں اور مخمل میں لپیٹ کر اُونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں تا کہ اُس کی بے اَدَبی نہ ہو ۔ کیا قرآن شریف یا حدیث میں اِس قسم کی کوئی ہدائت ہے ؟

ہم میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہوں نے قرآن شریف کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ بہت کم ہیں جنہوں نے ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی کم جو دین پر عمل کرنے کی کوشش کر تے ہیں ۔ لوگوں نے قرآن و حدیث سے مبرّا (بعض مخالف) اصُول خُود سے وُضع کر لئے ہوئے ہیں اور اُن پر عمل کر کے جنّت کے خواہاں ہیں ۔ کتنی خام خیالی ہے یہ !

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو 1426 سال پہلے آئے ہوئے دین کو آج کے ترقّی یافتہ دور میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں ۔ فانی انسان کے بنائے ہوئے سائنس کے کسی فارمولے کو (جو قابلِ تغیّر ہیں) رَد کرنے کے لئے ہمیں سالہا سال محنت کرنا پڑتی ہے لیکن اللہ کے بنائے ہوئے دین کو رد کرنے کے لئے ہمیں اتنی عُجلت ہوتی ہے کہ اسے سمجھنے کی کوشش تو کُجا ۔ صحیح طرح سے پڑھتے بھی نہیں ۔

میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر عربی نہ بھی آتی ہو پھر بھی قرآن شریف کی عربی میں تلاوت ثواب کا کام ہے اور روزانہ تلاوت برکت کا باعث ہے ۔ میرا خیال ہی نہیں تجربہ بھی ہے کہ اگر عربی میں تلاوت باقاعدہ جاری رکھی جائے تو مطلب سمجھنے میں ممِّد ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن جو بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ویسے تو ہم قرآن شریف کو سمجھنا برطرف کبھی کھول کر پڑھیں بھی نہیں اور نہ اس میں لکھے کے مطابق عمل کریں مگر کسی کے مرنے پر یا محفل رچانے کے لئے فرفر ایک دو پارے پڑھ لیں اور سمجھ لیں کہ فرض پورا ہو گیا ۔

اللہ ہمیں قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

ہمارا رویّہ

۔اگر کسی دُنیاوی موضوع پر لکھنا ہو یا تقریر یا تنقید کرنا ہو تو پہلے اس موضوع پر تحقیق کر کے مصدّقہ مواد اکٹھا کرتے ہیں۔ اس موضوع پر کتاب یا کوئی تحریر موجود ہو تو اس کا مطالعہ بھی کرتے ہیں ۔ سب کچھ اچھی طرح ذہن نشین کرنے کے بعد اس موضوع پر لکھتے ہیں یا تقریر یا تنقید کرتے ہیں۔ لیکن اگر موضوع دِین اِسلام ہو تو کچھ لوگ دِین کو سمجھنے کی کوشش تو کُجا ۔ قرآن الحکیم کا ترجمہ اور تفسِیر کو پڑھے بغیر اِسلام پر تقریر اور تنقید شروع کر دیتے ہیں۔ یہ رویّہ کہاں تک منطقی اور جائز ہے کبھی کسی نے سوچا اس کے متعلق ؟

کیا کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان ہو جاتا ہے ؟

ہاں ۔ کلمہ پڑھنے سے آدمی مسلمان ہو جاتا ہے ۔ مگر بات یہاں ختم نہیں ہوتی بلکہ یہاں سے شروع ہوتی ہے ۔ یوں سمجھ
لیجئے کہ اُردو کے قاعدہ میں سے “الف” پڑھ لی ۔ کو ئی شخص صرف “الف” پڑھ لینے سے تو پڑھا لکھا نہیں کہلا سکتا ۔ میں عالمِ دِین نہیں اس لئے میں ہر چیز کو اپنے روزمرّہ کے اصُولوں پر ہی پَرَکھتا ہوں ۔ میں سکول میں داخل ہوا پڑھائی کی ۔ کئی مضامین یاد کئے ۔ سال میں کئی ٹَیسٹ دیئے ۔ سہ ماہی ششماہی نوماہی سالانہ امتحانات دیئے اور سب محنت کر کے پاس کئے تب مجھے دوسری جماعت میں داخلہ کی اجازت ملی ۔ دس سال یہی کچھ دہرایا گیا ۔ اس فرق کے ساتھ کہ پڑھائی ہر سال بڑھتی اور مُشکل ہوتی گئی ۔ دس سال یوں گذرنے کے بعد مجھے میٹرک پاس کی سَنَد دِی گئی۔ میٹرک کی بنیاد پر کوئی ایسی ملازمت ہی مل سکتی تھی جس سے بمُشکل مجھے رُوکھی سُوکھی روٹی مل جاتی مگر شادی کر کے بیوی بچوں کا خرچ نہیں اُٹھا سکتا تھا ۔ چنانچہ پھر اُسی رَٹ میں جُت گیا ۔ وقت کے ساتھ ساتھ پڑھائی اور امتحان مشکل ہوتے گئے اور اِتنے مشکل ہوۓ کہ رات کی نیند اور دِن کا چَین حرام ہو گیا ۔ میٹرک کے چھ سال بعد بی ایس انجنئرنگ کی سَنَد مِلی ۔

پھر نوکری کے لئے تگ و دو شروع ہوئی ۔ امتحان دیئے انٹرویو دیئے تو نوکری ملی اور اپنا پیٹ پالنے کے قابل ہوۓ ۔ یہ سب کچھ اس لئے ممکن ہوا کہ اِکیس بائیس سال کے لئے کھانے پینے اور پڑھائی کا خرچ کسی اور یعنی والدین نے دیا اگر وہ نہ دیتے تو جو میرا حال ہوتا وہ میں سوچ بھی نہیں سکتا ۔ سوچا تھا ملازمت مل جائے گی تو عیش کریں گے مگر خام خیالی نکلی ۔ سارا سارا دن محنت کی پھر بھی آفیسر کم ہی خوش ہوۓ ۔ متعدد بار تیز بخار ہوتے ہوۓ پورا دِن نوکری کی ۔

جو لڑکے سکول یا کالج سے غیرحاضر رہتے رہے یا جنہوں نے امتحان نہ دیا یا محنت نہ کی یا امتحان میں فیل ہو گئے وہ پیچھے رہتے گئے اور کئی سکول یا کالج سے نکال دیئے گئے ۔ یہ لڑکے نالائق اور ناکام کہلائے ۔ جن لوگوں نے ملازمت کے دوران محنت نہ کی یا غیرحاضر ہوتے رہے وہ ملازمت سے نکال دیئے گئے ۔

عجیب بات ہے کہ یہ سب کچھ جانتے ہوۓ میں والدین مسلمان ہونے یا صرف کلمہ طیّبہ پڑھ لینے کی بنیاد پر دعوی کرتا ہوں کہ میں مسلمان ہوں چاہے نماز روزہ کی پابندی نہ کروں یا صرف نماز کر لوں مگر حقوق العباد کا خیال نہ کروں جس کے متعلق اللہ کا فرمان ہے کہ اگر متعلقہ شخص معاف نہ کرے تو معافی نہیں ہو گی یعنی سچ نہ بولوں ۔ انصاف نہ کروں ۔ کسی کی مدد یا احترام نہ کروں ۔ دوسروں کا حق ماروں ۔ کیا سب مجھے بیوقوف یا پاگل نہیں کہیں گے ؟ مگر افسوس ہمارے مُلک میں ایسا ہی ہوتا ہے چونکہ دِین کے بارے میں ہماری سوچ ہی ناپختہ ہے

مارچ 1981 عیسوی میں بھرتی کے لئے میٹرک فرسٹ ڈویزن لڑکوں کا انٹرویو لیتے ہوۓ مجھے چند عیسائی اُمیدواروں نے حیران کیا کیونکہ اُنہیں قرآن شریف کی سورتیں اور ترجمہ مسلمان اُمیدواروں سے زیادہ اچھی طرح یاد تھا ۔ میرے پوچھنے پر اُنہوں نے بتایا کہ اِسلامیات کا کورس بائبل کی نسبت بہت کم ہے اسلئے بائبل کی بجاۓ اُنہوں نے اِسلامیات پڑھی ۔ یہ لوگ کلمہ طیّبہ کے علاوہ قرآن کی آیات اور احادیث پڑھتے اور یاد کرتے ہیں لیکن چونکہ وہ قرآن پر عمل نہیں کرتے اِسلئے وہ مسلمان نہیں تھے ۔

سال 1981 عیسوی کی بات ہے ایک لبنانی عیسائی فلپ ہمام بیلجیم کی ایک بہت بڑی کمپنی پی آر بی میں ڈائریکٹر کمرشل تھا ۔ میں نے اُسے تسبیح پڑھتے دیکھ کر پوچھا کہ کیا پڑھ رہے ہیں ؟ اُس نے کہا اَشْہَدُ اَنْ لَآ اِلٰہَ اِلّاَللہُ مُحَمْدٌّ رَّسُوْلُ اللہِ ۔ میری حیرانی پر اُس نے کہا میں دانتوں سے ناخن کاٹتے رہنے سے بہت تنگ تھا ۔ سائیکالوجسٹ نے مشورہ دیا کہ ہروقت ہاتھوں کو مصروف رکھو ۔ میں لبنان کا رہنے والا ہوں ۔ وہاں میں نے مسلمانوں کو فارغ وقت میں تسبیح پڑھتے دیکھا تھا سو میں نے ان کی نقل کی مگر میں اس کے مطابق عمل نہیں کرتا بلکہ بائبل پر عمل کرتا ہوں اس لئے میں عیسائی ہوں ۔

کلمہ طیّبہ جسے پڑھ کر مسلمان ہوتے ہیں اِس یقین کا اِظہار ہے کہ میں سواۓ اللہ کے کسی کو معبود نہیں مانتا اور مُحَمَدْ صَلَّی اللہُ عَلَیْہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلَّم اُس کے پیامبر ہیں ۔ اگر کلمہ صرف زبان سے پڑھ لینے سے آدمی مسلمان ہو جاتا تو مندرجہ بالا قسم کے سارے عیسائی مسلمان ہوتے مگر ایسا نہیں ہے ۔ علامہ اقبال نے سچ کہا ہے ۔

زباں سے کہہ بھی دیا لَا اِلٰہَ تو کیا حاصل ۔ دل و نگاہ مسلمان نہیں تو کچھ بھی نہیں
اور
عمل سے زندگی بنتی ہے جنّت بھی جہنّم بھی ۔ یہ خاکی اپنی فطرت میں نہ نُوری ہے نہ ناری ہے

کبھی ہم نے سوچا

سبحان اللہ ۔ تعریف اُس خدا کی جس نے مجھے ۔ آپ سب کو اور پوری کائنات کو بنایا ۔ اگر کوئی شخص ہمیں ایک چھوٹا سا تحفہ بھی دے تو ہم تحفہ دینے والے کے احسانمند ہوتے ہیں اور موقع ملنے پر اُسے بہتر تحفہ دیتے ہیں ۔ لیکن عجب بات ہے کہ جس نے ہمیں اَن گنت
تحائف دیئے اور آئے دن دیتا رہتا ہے اُس کا ہم شکریہ بھی ادا نہیں کرتے ۔ ” اور تم اپنے رب کی کون کونسی نعمتوں کو جھٹلاؤ گے”

اسلام ۔ دین ہے یا مذہب ؟

میری سمجھ میں آج تک نہیں آ یا کہ ہم اِسلام کو مذہب کیوں کہتے ہیں ۔ شائد اِس کی وجہ یہ ہے کہ ہم انگریزی کے لفظ religion کا ترجمہ کرتے ہیں ۔ قرآن الحکیم میں کہیں بھی اسلام کے ساتھ یا اس کے متعلق مذہب کا لفظ استعمال نہیں ہوا۔ سورۃ المآئدہ کی آیۃ 3 میں تو بالکل واضح ہے ” آج میں نے تمہارے دین کو تمہارے لئے مکمل کر دیا ہے اور اپنی نعمت تم پر تمام کر دی ہے اور تمہارے لئے اِسلام کو تمہارے دین کی حیثیت سے قبول کر لیا ہے۔” صدق اللہ العظیم ۔

مذہب کا لفظ عربی زبان سے اُردو میں آیا۔ اِس کا مطلب فرقہ ہوتا ہے ۔ عربی زبان میں ایک مقُولہ ہے ۔ مَنْ تَہَذَّبْ خَاءنْ ۔ یعنی جس نے تفرقہ ڈالا اُس نے خیانت کی ۔ ایک کتاب پاکستان میں دستیاب ہے ” کِتَابُ الْفِقَہ عَلَی الْمذاہِبَ الارْبَعَہ ” تالیف ہے عبدالرَّحْمٰن الجزیری کی جو جامعہ الازہر مصر کے مشہور عالِم تھے ۔ اس کتاب کا اُردو ترجمہ تیئس سال قبل شائع ہوا تھا۔ اس کتاب میں جو اربعہ یعنی چار مذہب یعنی فرقے ہیں وہ حنفی۔ شافعی۔ مالکی اور حنبلی ہیں ۔ جن اشخاص سے یہ مذہب منسلک کئے گئے ہیں وہ چار مُجتہد ہیں ۔ امام ابو حنیفہ 80 تا 150 ہجری ۔ امام عبدالمالک 93 تا 179 ہجری ۔ امام شافعی 150 تا 204 ہجری اور امام احمد بن حنبل 164 تا 241 ہجری ان چاروں حضرات کی سوانح پڑھیں تو پتہ چلتا ہے کہ انہوں نے وقت کے مطابق دین کی سمجھ بڑھانے کے لئے اِجتہاد کیا ۔ ان کے ادوار میں مسلمان کسی خاص مذہب یعنی فرقہ کے پابند نہیں تھے اور نہ ہی ان کے علم میں تھا کہ ایسی کوئی شق ہے جس میں علماء اور آئمہ کرام کے استنباط اور اِجتہاد کو حتمی حیثیت دے دی جائے ۔ جب تک مُجتہدین نے اِجتہاد کی حدود و قیود کی پابندی کی اس وقت تک اِجتہاد باعث رحمت رہا اور اختلاف رائے میں رواداری حوصلہ اور درگذر کا پہلو غالب رہا اور مسلمان فقط دین اسلام پر کاربند رہے ۔ وسط چوتھی صدی ہجری یعنی امام ابو حنیفہ کی وفات کے دو صدی بعد تک اور امام احمد بن حنبل کی وفات کے ایک صدی بعد تک مسلمان دین پر صحیح طور سے کاربند رہے ۔ جب اِجتہاد کی شرائط سے چشم پوشی شروع ہوئی تو مذہبیت یعنی فرقہ واریت بتدریج غالب آنا شروع ہو گئی اور تعصّب کے دور کا آغاز ہو گیا ۔ آج لوگ اَن گنت فرقوں میں بٹ کر دین سے بہت دور جاچکے ہیں ۔ کچھ لوگ اللہ اور اس کے رسول کے بتائے ہوئے راستہ کو چھوڑ کر اپنے منتخب مرشدوں یا اماموں کے بتائے ہوئے یا شائد اپنی طرف سے ان کے نام سے منسوب کردہ اپنے بنائے ہوئے راستوں پر چل رہے ہیں جس کے نتیجہ میں نہ صرف دینی بلکہ دنیاوی لحاظ سے بھی مسلم اُمّہ بہت پیچھے رہ گئی ہے ۔

کردار

ذرا کردار پر بھی نظر ڈالتے ہیں ۔ اسلام ہمیں تنظیم اور تعظیم سیکھاتا ہے ۔ قائداعظم نے ہمیں ایمان اتحاد تنظیم کا نعرہ دیا ۔ مگر ہماری قوم نہ اسلام کا لحاظ رکھتی ہے نہ قائداعظم کی تعظیم ۔ حالت یہ ہو چکی ہے کہ لوگوں کو قانون شکنی میں مزہ آنے لگا ہے ۔ چوراہے میں بتی سرخ ہو گئی ہے مگر لوگ متواتر ہارن بجاتے ہوئے نکل جاتے ہیں ۔ سڑک پر اگر داہنی طرف جگہ نہ ہو تو گاڑی بائیں طرف سے نکال کر لے جاتے ہیں جو کہ قانون کی خلاف ورزی ہے ۔ جہاں حدِ رفتار 80 کلومیٹر فی گھینٹہ ہو وہاں 120 کلو میٹر پر گاڑی چلانے میں لوگ فخر محسوس کرتے ہیں ۔ کچھ کو انتہائی تیزی سے گاڑی آگے نکال کر دوسری گاڑیوں کے آگے بریک لگانے میں لُطف آتا ہے ۔ یوم آزادی کو مغرب کے بعد خیابان قائد اعظم بلیو ایریا چلے جائیے اور دیکھئے کہ کوئی شریف خاتون یا شریف آدمی بڑے گھرانوں کے نوجوانوں کی کان پھاڑنے والی موسیقی کے علاوہ ان کے غلیظ جملوں اور پٹاخوں سے محفوظ نہیں رہتا ۔ چند سال سے اس کاروبار میں لڑکیاں بھی پیچھے نہیں رہیں ۔ یہ سب اسلام آباد کی روئداد ہے جہاں بڑے بڑے آفیسر رہتے ہیں ۔

اگر کسی جگہ قطار لگی ہو تو کوشش کی جاتی ہے کہ کسی طرح آگے پہنچ جائیں ۔ دوسروں کا حق مارنا اپنا پیدائشی حق سمجھا جاتا ہے ۔ یہ سب کچھ کرنے کے بعد احساس جرم کی بجائے اُن کے سینے فخر سے پھُول جاتے ہیں ۔ کوئی بااصول شخص اُنہیں سمجھانے کی کوشش کرے تو اُسے گالی گلوچ کے علاوہ دو گھونسے بھی پڑ سکتے ہیں ۔ جھوٹ بولنے کو ہوشیاری اور بدتمیزی کو اعلی معیار گردانا جاتا ہے اور قانون کی پابندی کرنے والےشریف آدمی کو بیوقوف سمجھا جاتا ہے ۔

ظُلم ہوتا دیکھیں تو بجائے روکنے کے لوگ وہاں سے کھِسک جاتے ہیں یا بڑے شوق سے نظارہ کرتے ہیں ۔ البتہ سٹیج پر ظُلم کے خلاف تقریریں کرنے میں پیش پیش ہوتے ہیں ۔ تقریریں کرنا اور تصویریں کھچوانا ہی اعلی کارکردگی کا معیار بن گیا ہے ۔ عمل کی کوئی قدر نہیں ۔ لیکن اللہ سے محبت رکھنے والے یا جن کے دل انسانیت سے لبریز ہیں ظُلم ہوتا نہیں دیکھ سکتے ۔ کچھ سال پہلے کا واقعہ ہے ۔ سیالکوٹ کے محلہ سلہریاں میں دو جوانوں میں تکرار ہوئی بات یہاں تک پہنچی کہ ایک جوان خنجر لے کر آ گیا ۔ محلے کے لوگ (مردوں سمیت) جو کھڑے تماشہ دیکھ رہے تھے خنجر دیکھ کر گھروں میں گھس گئے ۔ ایک خاتون نے شور سن کر کھڑکی سے جھانکا تو اسے خجر لے کر آتا ہوا جوان نظر آیا ۔ وہ بھاگ کر گلی میں پہنچی ۔ اتنی دیر میں وہ جوان بھرپور وار کرنے کے لئے اپنا خنجر والا ہاتھ بلند کر چکا تھا ۔اس جری خاتون نے دونوں جوانوں کے درمیان پہنچ کر خنجر والے ہاتھ کی کلائی پکڑ کر ایسا جھٹکا دیا کہ خنجر ہاتھ سے نکل کر دور جا گرا اور جوان بھی اس غیر متوقع حملے سے دہل گیا ۔ خاتون کی اس بہادری کو دیکھ کر محلہ والوں کو حوصلہ ہوا اور انہوں نے دروازوں کے پیچھے سے نکل کر دونوں جوانوں کو قابو کر لیا ۔

ہماری قوم کے کردار کا ایک اور پہلو بھی قابل غور ہے ۔ لوگ باتوں میں تو تعلیم کے شیدائی ہیں لیکن اگر کوئی سکالر کسی موضوع پر عمدہ تقریر کرنے والا ہو اور ہال میں داخلہ کا کوئی ٹکٹ بھی نہ ہو تو ہال آدھا خالی رہتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں اگر کسی ناچنے والی نے نیم برہنہ ناچ کرنا ہو یا کسی پاپ موسیقی کے ٹولے نے اپنے کرتب دکھانے ہوں تو لوگ ٹکٹ خریدنے بھی اتنے زیادہ پہنچ جاتے ہیں کہ ٹکٹ گھر اور ٹکٹ بیچنے والوں کو بچانے کے لئے پولیس بلانا پڑتی ہے ۔

حکومت اور قانون

ہمارے ملک میں قتل و غارت گری بالخصوص کارو کاری کو روکنا اس لئے ممکن نہیں کہ ہمارے زیادہ تر قوانین ہماری آزادی سے قبل غیر ملکی حاکم (انگریزوں) نے ہمیں کمزور کرنے اور اپنی حکومت کو مضبوط کرنے کے لئے بنائے تھے ۔ یہ قوانین حکومت وقت کے بعد زیادہ تر ان لوگوں کی حمائت میں ہیں جن کو انگریزوں نے اپنی حکومت مضبوط کرنے کی خاطر اپنی قوم یعنی ہندوستان کے باشندوں سے غدّاری کے عوض جاگیریں عطا کیں اور خان بہادر ۔ سردار یا وڈیرہ بنایا ۔ قانون با اختیار ہو تو بھی کچھ اچھا نتیجہ نکلے مگر اپنے مُلک میں تو صرف کتابوں میں ہے اس پر عمل درآمد کرانے کے لئے نہیں ۔

اِس انسان دشمن نظام کو بدلنا اس لئے مشکل ہے کہ سردار اور وڈیرے یا ان کی اولاد یا عزیز و اقارب ہر طرف ہیں ۔ اسمبلیاں ہوں ۔ فوج ہو یا سول سیکرٹیریٹ ۔ ہر ادارہ کی فہرستیں بنا کے تحقیق کر لیجئے ہر جگہ آپ ان کو پائیں گے ۔ دوسرا عنصر جس نے پاکستان بننے کے پانچ سال کے اندر ہی پاکستان کے عوام کو اصل آزادی سے محروم کرنے کی سازشیں شروع کر دیں تھیں وہ ہیں انڈین سول سروس (آئی سی ایس) کے تربیّت یافتہ آفیسران اور فوج کے اعلی آفیسرز جو قائداعظم اور پاکستان کی نسبت حکومت برطانیہ کے زیادہ وفادار تھے ۔ آج کی سول سروس کے آفیسران بھی انہی کے نقش قدم پر چلتے ہوئے اپنے آپ کو حاکم اور عوام کو غلام سمجھتے ہیں ۔ پاکستان بننے کے بعد سب سے سینئر دو مسلمان فوجی آفیسر جو محب وطن تھے وہ ایک ہوائی حادثہ میں ہلاک ہو گئے ۔ کہتے ہیں یہ حادثہ ایک سازش تھی ۔ نتیجہ یہ ہوا کہ حکومت برطانیہ کے دلدادہ ایوب خان فوج کے سربراہ بن گئے ۔

پاکستان کے پہلے وزیر اعظم اور قائداعظم کے قریب ترین ساتھی لیاقت علی خان کو ایک سازش کے تحت 1951 عیسوی میں ہلاک کر دیا گیا۔ خواجہ ناظم الدین کو قائداعظم کے بعد گورنر جنرل بنایا گیا تھا ۔ حکومت پر قبضہ کرنے کے لئے انہیں قوم کا واسطہ دے کر وزیراعظم بنا دیا گیا اور پھر 1953 عیسوی میں ان کی حکومت مع اسمبلی کے توڑ دی گئی ۔ 1954 عیسوی میں بیوروکریٹس غلام محمد (گورنر جنرل) ۔ جنرل محمد ایوب خان (کمانڈر انچیف اور وزیر دفاع) اور میجر جنرل ریٹئرڈ اسکندر مرزا کی چوہدراہٹ میں حکومت شروع ہوئی اور اپنی مرضی کے وزیر اعظم بنائے اور ہٹائے جاتے رہے ۔ غلام محمد کے بعد میجر جنرل ریٹائرڈ سکندر مرزا اور پھر 1958 عیسوی میں جنرل محمد ایوب خان کی قیادت میں پکی فوجی حکومت آ گئی ۔ تمام سیاست دان جنہوں نے پاکستان بنانے کے لئے کام کیا تھا ان کو نا اہل قرار دے دیا گیا ۔ بنیادی جمہوریت کے نام سے سیاست دانوں کی نئی پنیری لگائی گئی جنہوں نے کُنبہ پروری کو عام کیا ۔ پھر جنرل دس دس سال حکومت کرتے رہے مگر انہوں نے اپنے تیار کردہ سیاست دانوں کو بھی دو تین سال سے زیادہ حکومت نہ کرنے دی ۔ اس طرح سارا وقت اپنے آپ کو مضبوط بنانے ۔ اپنی جائیدادیں بنانیں اور اپنی انڈسٹریاں قائم کرنے میں گذارتے رہے ۔ اس کے لئے جنہوں نے ان کا ساتھ دیا ان کو بھی مالامال کیا گیا ۔ ملک و قوم اور قوانین میں بہتری لانے کی کوئی کوشش کرنے کی بجائے قوانین کو ذاتی خواہشات کے مطابق ڈھالتے رہے ۔

تفتیش

پولیس کا نظام جو آج بھی رائج ہے انگریزوں نے اس لئے بنایا تھا کہ پولیس کے ملازم سرداروں اور وڈیروں کے ٹکڑوں پر پلیں اور ان کی فرمابرداری کریں کیونکہ یہ سردار اور وڈیرے انگریز حاکموں نے بناۓ تھے اور انہی کے خیر خواہ تھے۔ محب وطن اور دیانت دار لوگوں کے خلاف مُخبری اور ان کو ایزا رسانی پولیس کے غیر تحریر شدہ فرائض میں شامل تھیں ۔ ہمارے ہاں واردات کی تفتیش کا جو طریقہ اب بھی عملی طور پر رائج ہے وہ قانون سے آزاد اور انسانیت دشمن ہے ۔ تفتیش کرنے والا پولیس میں ہو یا فوج میں ۔ ظلم و تشدّد اور شیطانی عمل سے اپنی مرضی کے بیان پر دستخط کروا لئے جاتے ہیں ۔ اس لئے کوئی شریف آدمی سچ کی حمائت کرتے ہوئے بھی ڈرتا ہے ۔ اس کا دوسرا منفی پہلو یہ ہے کہ بعض اوقات مُجرم بھی عدالت میں یہ بیان دے کر بچ جاتا ہے کہ تشدّد کے ذریعہ اس سے جھوٹے بیان پر دستخط کروائے گئے تھے ۔ مالدار اور بارسُوخ لوگ جھوٹے گواہ خرید کر اور پولیس والوں کی جیبیں بھر کر نہ صرف خود جرم کی سزا سے محفوظ رہتے ہیں بلکہ اپنے پالے ہوئے غنڈوں پر بھی گزند نہیں آنے دیتے ۔

تفتیش میں ایک اور بڑا نقص یہ ہے کہ عام طور پر یہ فیصلہ پہلے ہی کر لیا جاتا ہے کہ کس سے کیا بیان لینا ہے اور پھر اسے اس بیان کی ترغیب دی جاتی ہے اور نہ ماننے پر تشدّد کیا جاتا ہے ۔ اس کے علاوہ ہماری عدالتوں کے احاطہ کے اندر ہی پیشہ ور گواہ ملتے ہیں ۔ ان کی اُجرت گواہی کی نوعیت کے مطابق ہوتی ہے ۔ یہ فرضی گواہ اصل گواہوں سے زیادہ طمطراق کے ساتھ بیان دیتے ہیں ۔

کراچی میں ایک بزرگ ایم ایم احسن رہتے ہیں ۔ لکھتے ہیں کہ چھتیس سال قبل جب وہ ڈپٹی انسپکٹر جنرل پولیس تھے ۔ پی آئی اے کے ایک ملازم نے بظاہر پولینڈ کے صدر کو گاڑی کے نیچے کُچلنے کی کوشش کی لیکن قریب پہنچ کر گاڑی کا رُخ بدل گیا اور دو استقبال کرنے والے گاڑی کی زد میں آ گئے ۔ تفتیش پر ملزم نے بتایا کہ وہ پولینڈ کے صدر کو نہیں بلکہ اپنے صدر یحٰی خان کو اس کے غلط چال چلن کی وجہ سے مارنا چاہتا تھا ۔ اتفاق سے صدر یحی خان عین آخری وقت اسلام آباد میں رُک گئے تھے ۔ ملزم جب تیز رفتار سے گاڑی چلاتا ہوا قریب پہنچا تو دیکھا کہ دو بچے پھول پیش کر رہے ہیں ۔ بچوں کو بچانے کے لئے گاڑی ایک دم موڑ دی تو وہ دو استقبال کرنے والوں سے ٹکرا گئی ۔ حکومت کی تسلّی نہ ہوئی اور انکوائری فوج کے ایک بریگیڈیئر کے ذمہ کی گئی ۔ انکوائری کے بعد بریگیڈیئر نے احسن صاحب کو بتایا کہ میں نے ملزم سے حقیقت اُگلوا لی ہے اور احسن صاحب کو ملنے کا کہا ۔ وہاں پہنچنے پر احسن صاحب کو دیکھتے ہی ملزم نے کہا “جناب بات تو وہی ہے جو آپ کو بتائی تھی ۔ مگر بریگیڈیئر صاحب کی مارپیٹ سے تنگ آ کر اور بالخصوص اِن کی اس دھمکی کے خوف سے کہ اگر میں نے ان کے ساتھ تعاون نہ کیا تو وہ بر سرعام میری بیوی کو برہنہ کر دیں گے میں نے ان کی مرضی کے مطابق بیان دے دیا ہے ۔ (اعُوذبِاللہ)

پولیس ملازمین کی ایک کمزوری بھی ہے کہ پولیس کے نچلے عملہ کی تنخواہیں اِتنی کم ہوتی ہیں کہ ان کے بیوی بچوں کے جائز اخراجات بھی پورے نہیں ہوتے اس لئے وہ سرداروں اور وڈیروں اور جرائم پیشہ لوگوں کے غلام بن جاتے ہیں کیونکہ وہ ان کے اخراجات پورے کرتے ہیں۔ جب یہ عادت پڑ جاتی ہے تو جہاں سردار اور وڈیرے نہیں وہاں پولیس والے شریف یا بے وسیلہ لوگوں کی کلائی مروڑ کر اپنا خرچ پورا کرتے ہیں۔ یہی حالہمارے مُلک میں پٹواری اور گرداور وغیرہ کا ہے ۔ موجودہ قوانین اور نفاذ کے موجودہ نظام (پولیس) کی موجودگی میں پاکستانی عوام کو ظُلم سے چھٹکارہ اور آزادي کیسے مل سکتی ہے ؟

حدود آرڈیننس

میں حدود آرڈیننس کے صرف اس حصے پر اظہار خیال کروں گا جس کا تعلق بدکاری سے ہے ۔ اسلامی قوانین کے سلسلہ میں سب سے پہلے یہ بات ذہن نشین کر لینا چاہیئے کہ ان قوانین کا صحیح اطلاق اس وقت تک مشکل ہے جب تک ملک میں ایک رفاہی اور انصاف پسند حکومت قائم نہیں ہو جاتی ۔ حدود آرڈیننس کی سب سے بڑی خامی یہ ہے کہ اس کے صحیح اطلاق میں نہ صرف دوسرے قوانین حائل ہیں بلکہ قانون کے نفاذ کا سارا نظام ہی چوپٹ ہے ۔ تفتیش کے دوران عورت کی جسمانی اور جذباتی کمزوری کا پورا فائدہ با رسُوخ جابَر یا ظالم کو دیا جاتا ہے اور زنا بالجبر کے کیس میں بھی عام طور پر عورت کو مُجرم قرار دے دیا جاتا ہے اور یہ پولیس اور قانون دانوں کے شیطانی تعاون سے ہوتا ہے ۔

این جی اوز کا زیادہ زور حدود آرڈیننس کو ختم کرنے پر رہتا ہے جیسے حدود آرڈیننس میں لکھا ہو کے عورتوں کے ساتھ زیادتی کرو ۔ حدود آرڈیننس کو ختم کیا گیا تو بدکاری کو روکنا ناممکن ہو گا کیوں کہ کِسی اور مروّجہ قانون میں بدکاری کو باقاعدہ جُرم قرار نہیں دیا گیا ۔ البتہ حدود آرڈیننس میں زبردستی بدکاری کرنے کے سلسلہ میں گواہوں کی شرط پر نظرِ ثانی اور مناسب ترمیم کی ضرورت ہے ۔ اس کے علاوہ تفتیش کا نظام اور پولیس کی کارکردگی میں خامیوں کو دور کر کے فعال بنانا اشد ضروری ہے ۔ اللہ کی کرم نوازی دیکھئیے کہ وفاقی شریعت عدالت کے چیف جسٹس چوہدری اعجاز یوسف نے ایک عدالتی فیصلہ میں میرا نظریہ صحیح ثابت کر دیا ہے ۔ منگل۔ 31 جنوری 2006 کو جاری ہونے والے اور یکم فروری 2006 کے اخباروں میں شائع ہونے والے فیصلہ کا خلاصہ یہ ہے ۔

“وفاقی شرعی عدالت کی طرف سے منگل کو جاری ہونے والے ایک پریس ریلیز کے مطابق عدالت نے زنا سے متعلق مقدمہ میں ایڈیشنل سیشن جج کے فیصلہ کو کالعدم قرار دیتے ہوئے اسے ازسرنو سماعت اور فیصلہ کیلئے ٹرائل کورٹ کو واپس بھیج دیا۔ قبل ازیں ایڈیشنل سیشن کورٹ کی طرف سے عورت اور مرد دونوں کو زنا کا مرتکب قرار دیتے ہوئے قید اور جرمانہ کی سزائیں دی گئی تھیں۔ وفاقی شرعی عدالت نے اپنے فیصلے میں مزید قرار دیا کہ جب کسی مرد ملزم پر کسی عورت کی طرف سے زنا بالجبر کا الزام عائد کیا جائے تو تاخیر ۔ حمل قرار پانے یا کسی دیگر وجہ سے قطع نظر اولین مرحلے میں کسی عورت کو زنا بالرضا کے الزام میں زیر دفعہ 10(2) چارج نہ کیا جائے جب تک زنا بالرضا کی ضروری شہادت نہ مل جائے ۔ اور مقدمہ کی الزام کے مطابق سماعت کی جائے ۔ مرد ملزم کو اس کے مطابق چارج کیا جائے اور مستغیثہ کو اپنا الزام ثابت کرنے کا موقع فراہم کیا جائے ۔ اس طریقہ کار کو اپنانے سے عورت کے خلاف غلط استغاثہ کا سدباب ہو جائے گا اور سائلہ بطور گواہ پیش ہو کر شہادت دینے کے قابل ہو گی جو مناسب طور پر استعمال ہو سکے گی” ۔

” واقعات کے مطابق تھانہ خان پور ضلع ہری پور میں 4 جون 1997ء کو ایک عورت نے رپورٹ درج کرائی کہ وہ گھر میں اکیلی تھی اس کے پڑوسی جمروز نے دیوار پھلانگ کر اور دروازہ بند کرکے پستول کی نوک پر اس کے ساتھ زنا بالجبر کیا اور جاتے وقت اس کو دھمکی دی کہ اگر اس نے یہ واقعہ کسی کو بتلایا تو اسے سنگین نتائج کا سامنا کرنا پڑے گا۔ اس نے خوف کے مارے یہ واقعہ کسی کو نہ بتلایا۔ چند ماہ بعد معلوم ہوا کہ وہ حمل سے ہے۔ چنانچہ ملزم کے خلاف جرم زنا …نفاذ حدود… آرڈیننس 1979ء کی دفعات 5 اور 10 کے تحت درج بالا تاریخ پر پرچہ درج کر لیا گیا تاہم جب چالان عدالت بھجوایا گیا تو اُس میں پولیس نے اُس عورت کا بھی ملزمہ کے طور پر اندراج کیا ۔”

یہ کِس طرح ہوتا ہے ؟

دراصل عام طور پر ہوتا یہ ہے کہ پولیس چالان میں زنا بالجبر کو زنا بالرضا لکھ دیتی ہے یا زنا بالجبر کی قانونی دفعہ کی بجائے زنا بالرضا کی قانونی دفعہ کا اندراج کر دیتی ہے جس سے کیس کی نوعیّت ہی بدل جاتی ہے ۔ اِس کے نتیجہ میں زنا بالجبر کرنے والا مرد اصل سزا سے بچ جاتا ہے اور مظلوم عورت کو بدکار قرار دے کر سزا دے دی جاتی ہے ۔ اگر اِنصاف بانٹنے والے حکومتی اہلکار اِس شیطانی عمل میں شریک نہ ہوں تو کوئی وجہ نہیں کہ مظلوم عورت کو اِنصاف نہ ملے ۔

قرآن الحکیم میں کیا لکھا ہے

سورة النّسآء آیت 15 اور 16 ۔” تُمہاری عورتوں میں سے جو بَدکاری کی مُرتکِب ہوں اُن پر اپنے میں سے چار آدمیوں کی گواہی لو اور اگر چار آدمی گواہی دے دیں تو اُنہیں گھروں میں بند رکھو یہاں تک کہ اُنہیں موت آ جائے یا اللہ اُن کیلئے کوئی راستہ نکال دے ۔ اور تم میں سے جو اِس فعل کا ارتکاب کریں اُن دونوں کو تکلیف دو ۔ پھر اگر وہ توبہ کر یں اور اپنی اصلاح کر لیں تو انہیں چھوڑ دو کہ اللہ بہت توبہ قبول کرنے والا اور رحم فرمانے والا ہے “۔

سورة النّسآء آیت 25 ۔ “اور جو شخص تم میں سے اتنی مقدرت نہ رکھتا ہو کہ خاندانی مسلمان عورتوں سے نکاح کر سکے اسے چاہیئے کہ تمہاری اُن غلام عورتوں میں سے کسی کے ساتھ نکاح کر لے جو تمہارے قبضہ میں ہوں اور مومنہ ہوں – – – – پھر وہ جب حصارِ نکاح میں محفوظ ہو جائیں اور اس کے بعد کسی بد چلنی کی مرتکب ہوں تو اُن پر اُس سزا کی بہ نسبت آدھی سزا ہے جو خاندانی عورتوں کے لئے مقرر ہے – – – – ”

سورة النُّور آیت 2 ۔ ” زانیہ عورت اور زانی مرد دونوں میں سے ہر ایک کو سو کوڑے مارو اور ان پر ترس کھانے کا جذبہ اللہ کے دین کے معاملہ میں تمہیں دامنگیر نہ ہو اگر تم اللہ اور روزِ آخر پر ایمان رکھتے ہو ۔ اور ان کو سزا دیتے وقت اہلِ ایمان کا ایک گروہ موجود رہے” ۔

سورة النُّور آیات 5 تا 9 ۔ “اور جو لوگ پاکدامن عورتوں پر تہمت لگائیں پھر چار گواہ لے کر نہ آئیں اُن کو اَسی کوڑے مارو اور اُن کی شہادت کبھی قبول نہ کرو اور وہ خود ہی فاسق ہیں سوائے اُن لوگوں کے جو اس حرکت کے بعد تائب ہو جائیں اور اِصلاح کر لیں کہ اللہ ضرور غفور و رحیم ہے ۔
اور جو لوگ اپنی بیویوں پر الزام لگائیں اور ان کے پاس خود ان کے سوا دوسرے کوئی گواہ نہ ہوں تو اُن میں سے ایک شخص کی شہادت [یہ ہے کہ وہ] چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر گواہی دے کہ وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہے اور پانچویں بار کہے کہ اُس پر اللہ کی لعنت ہو اگر وہ جھوٹا ہو ۔ اور عورت سے سزا اسطرح ٹل سکتی ہے کہ وہ چار مرتبہ اللہ کی قسم کھا کر شہادت دے کہ یہ شخص [اپنے اِلزام میں] جھوٹا ہے اور پانچویں مرتبہ کہے کہ اس بندی پر اللہ کا غضب ٹوٹے اگر وہ [اپنے اِلزام میں] سچّا ہو “۔

سورة النُّور آیت 33 ۔ “اور اپنی لونڈیوں کو اپنے دُنیوی فائدوں کی خاطر قحبہ گری [زناکاری کا پیشہ] پر مجبور نہ کرو جبکہ وہ خود پاکدامن رہنا چاہتی ہوں اور جو کوئی اُن کو مجبور کرے تو اِس جَبَر کے بعد اللہ اُن کے لئے غفور و رحیم ہے” ۔

حدیث میں کیا ہے

ترمذی اور ابو داؤد کی روائت ہے کہ ایک عورت اندھیرے میں نماز کیلئے نکلی ۔ راستہ میں ایک شخص نے اسکو گرا لیااور زبردستی اس کی عصمت دری کی ۔ اس کے شور مچانے پر لوگ آ گئے اور زانی پکڑا گیا ۔ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم نے مرد کو رجم کرایا اور عورت کو چھوڑ دیا ۔

صحیح بُخاری شریف میں ہے ” خلیفہ [حضرت عمر رَضِی اللہ عَنْہُ] کے ایک غلام نے ایک لونڈی سے زبردستی بدکاری کی تو خلیفہ نے غلام کو کوڑے مارے لیکن لونڈی پر حَد نہ لگائی ۔

تمام کُتب حدیث میں موجود ہے کہ ایک لڑکا ایک شخص کے ہاں اُجرت پر کام کرتا تھا اور اُس کی بیوی کے ساتھ بدکاری کا مُرتکِب ہو گیا ۔ لڑکے کے باپ نے سو بکریاں اور ایک لونڈی دیکر اُس شخص کو راضی کر لیا ۔ مگر جب یہ مقدمہ رسول اللہ صلّی اللہ علیہ و سلّم کے پاس آیا تو آپ نے فرمایا ” تیری بکریاں اور تیری لونڈی تجھی کو واپس” اور پھر آپ نے زانی اور زانیہ دونوں پر حد جاری فرما دی ۔

نتیجہ

جیسا مندرجہ بالا آیات اور احادیث سے واضح ہے تقریباً تمام فُقہاء اس بات پر متفق ہیں کہ بدکاری کے ثبوت کے لئے چار گواہ ضرورری ہیں ۔ لیکن اس میں زبردستی سے کی گئی بدکاری شامل نہیں کیونکہ کسی کے ساتھ زیادتی بھی ہو اور وہ سزا بھی پائے یہ منطق اور فطرت کے خلاف ہے اور اِسلام دینِ فطرت ہے اور منطق کی تعلیم دیتا ہے ۔ اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی نے جس فطرت پر انسان کو پیدا کیا ہے حدود و قیود بھی اُسی کے مطابق بنائی ہیں ۔

عورت کو اغواء کیا گیا ہو یا وہ پولیس کی قید میں ہو تو اُسکی حالت ایسی غلامی کی ہوتی ہے جہاں وہ بالکل بے بس ہوتی ہے ۔ ایسی صورت میں زنا عموماً بالجَبَر ہوتا ہے اس میں عورت پر چار گواہوں کی شرط عائد نہیں ہوسکتی اور وہ اس جُرم [گناہ] سے برّی ہوتی ہے اور چونکہ اُس کے پاس گواہ ہونا بعید از قیاس ہے اسلئے اگر وہ قرآن شریف میں درج قسمیں اُٹھا کر کہہ دے کہ اس مرد نے میرے ساتھ زبردستی بدکاری کی ہے تو وہ مرد زانی کے سزا کا مُستحق ہو جا تا ہے ۔ دیگر اگرکسی کیس میں مرد مانے کہ اُس نے بدکاری کی ہے مگر عورت کی مرضی سے لیکن متعلقہ عورت انکاری ہو اور قرآن شریف میں درج قسمیں اُٹھا لے تو اس صورت میں بھی مرد زانی کے سزا کا مُستحق ہو جا تا ہے ۔

بلا جواز اعتراض

اسلامی قوانین سے واقفیت نہ رکھنے والے جَبَر و اِستَبداد کو ختم کرنے کی بجائے اِسلامی قوانین میں کیڑے نکالنا آسان سمجھتے ہوئے اسلامی قوانین کی مخالفت پر تُل جاتے ہیں ۔ حدود آرڈیننس میں درج چار گواہیوں پر اعتراض کیا جاتا ہے ۔ اس پر ٹھنڈے دل سے غور کرنے کی ضرورت ہے ۔ اتنی سخت سزا کسی اور جُرم کی نہیں ۔ قرآن شریف میں ایک انسان کے قتل کو پوری اِنسانیت کا قتل کہا گیا ہے ۔ قاتل کی سزا موت ہے اور اگر مقتول کے وارث از خود معاف کر دیں تو قاتل زندہ رہتا ہے ۔ اس کے مقابلہ میں جیسا کہ مندرجہ بالا احادیث سے واضح ہے زنا کی سزا میں کسی صورت معافی نہیں اور سو کوڑے کھانے والا جس اذیّت سے گذر کر مرتا ہے اس کا اندازہ لگائیے ۔ میرا ذاتی خیال ہے کہ ہمارا موجودہ معاشرہ جس طرح کا بن گیا ہے اگر یہ پابندی نہ ہوتی تو خود غرض اور جابر مرد ۔ عورتوں پر جھوٹے الزامات لگا کر یا تو انہیں اپنی ناجائز خواہشات کو پورا کرنے کا کھلونا بنا لیتے یا ان کا جینا مشکل کر دیتے ۔ جو کچھ آجکل چند علاقوں میں سردار یا وڈیرے کاروکاری یا مانی یا ونی یا سوارا کے نام پر یا جرگوں کے فیصلوں سے کر رہے ہیں وہ کھُلے عام ملک میں ہر جگہ ہونے لگتا ۔

آج کل عورتوں کے ساتھ زبردستی بدکاری کے جو واقعات ہو رہے ہيں ان کی سب سے بڑی وجوہ ہمارے معاشرہ کی دین سے دوری ۔ اخلاقی اِنحطاط اور مظلُوم کو انصاف کا نہ ملنا ہے ۔ جب تک ہماری اقدار درست نہیں ہو جاتیں کسی بھی قانون کا صحیح اطلاق ممکن نہيں ۔

کاروکاری

تقریباً تمام فُقہاء متفق ہیں کہ حَد قائم کرنا اور سزا کا اِطلاق قرآن شریف اور حدیث کے مطابق حکومت کی ذمہ داری ہے عوام میں سے کوئی فرد یا گروہ نہ حد قائم کر سکتا ہے نہ سزا دے سکتا ہے ۔ مزید مندرجہ بالا احادیث سے واضح ہے کہ قتل کے معاملہ کے برعکس بدکاری کے معاملہ میں راضی نامہ تاوان دے کر بھی نہیں ہو سکتا ۔ اسلئے کاروکاری ۔ مانی ۔ ونی اور سوارا جیسی رسمیں دین اسلام کے احکام کی صریح خلاف ورزی ہے اور ان کا سدِ باب ضروری ہے ۔

ہم نے بہت سے رسم و رواج غیر مسلموں سے اپنائے ہوئے ہیں جن میں سے ایک کارو کاری ہے ۔ کارو کے معنی کالا اور کاری کے معنی کالی ہے یعنی جس مرد یا عورت نے اپنا منہ کالا کیا۔ مطلب ہے بدکاری کی ۔ یہ رواج زمانہ قدیم سے بلوچوں میں چلا آ رہا ہے اور جہاں جہاں بلوچ گئے اسے ساتھ لے گئے ۔ چنانچہ آجکل یہ رواج بلوچستان کے علاوہ سندھ۔ جنوبی پنجاب اور سرحد میں بھی پایا جاتا ہے انگریزوں نے ہندوستان پر اپنی گرفت مضبوط کرنے کے لئےاس سرداری نظام کو قانونی تحفظ دیا ۔ انگریز گورنر البرٹ سینڈیگن نے 1873 عیسوی میں قبائل کے ساتھ دوستی کا معاہدہ کرتے ہوئے جن قبائلی رسم و رواج کو قانونی تحفظ دیا ان میں ایک کارو کاری بھی ہے ۔ میرا خیال ہے کہ انگریزوں کے بنائے ہوئے باقی قوانین کی طرح یہ قانون بھی ابھی تک قائم ہے ۔

قبیلوں میں قبیلہ کے سردار مطلق العنان حاکم ہوتے ہیں اور باقی لوگ محکوم (غلامی کی حد تک) ۔ سردار کے خاندان کا مرد جس عورت کو چاہے اپنی ناجائز خواہشات کا شکار بنائے اس پر کوئی قدغن نہیں مگر عام لوگوں میں کوئی سردار کی مرضی کے بغیر شادی بھی نہیں کر سکتا سردار چاہے کسی کی بیٹی کو کسی اوباش یا بدمعاش سے بیاہ دے یا کسی بڈھے سے جس کے پوتے پوتیاں بھی ہوں ۔ انکار کی صورت میں لڑکی کو کاری قرار دے کر قتل کر دیا جاتا ہے۔ سردار سے باقاعدہ اجازت کے بغیر کسی سے رشتہ کی بات کرنے پر کارو کاری قرار دے کر لڑکا لڑکی دونوں کو قتل کر دیا جاتا ہے ۔ سردار کا یہ حکم کسی حد تک سردار کے خاندان کی لڑکیوں پر بھی لاگو ہوتا ہے ۔ اگر سردار کے گھرانے کی لڑکی اپنی مرضی سے شادی کرنا چاہے تو اسے کسی بہانہ سے قتل کر دیا جاتا ہے ۔ اگر وہ لڑکی کسی ماتحت لیکن شریف لڑکے سے شادی کرنا چاہتی ہے جبکہ سردار مال یا زمین کی خاطر اسے کسی بوڑھے یا بچے یا شرابی کبابی سے بیاہنا چاہتا ہے تو اس بےگناہ لڑکے کو کسی غریب بےگناہ لڑکی کے ساتھ کارو کاری قرار دے کر دونوں بے قصوروں کو قتل کر دیا جاتا ہے۔ کہتے ہیں کہ جن کو کارو یا کاری قرار دیا جائے نہ ان کو غسل دیا جاتا ہے نہ کفن پہنایا جاتا ہے اور نہ ان کی نماز جنازہ پڑھی جاتی ہے ۔ یہی کھیل ہمارے پیارے ملک کے دوسرے علاقوں میں غیرت کے نام پر کھیلا جاتا ہے۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ اس ظُلم کی بھینٹ چڑھنے والوں میں لگ بھگ 70 فیصد عورتیں یا لڑکیاں اور 30 فیصد مرد ہوتے ہیں۔

ڈاکٹر شاہد مسعود ایک آرتھو پیڈک سرجن ہیں جو اے آر وائی ٹی وی سے مختلف پروگرام پیش کرتے ہیں ۔ ان کا ایک پروگرام ہے ویووز آن نیوز ۔ انہوں نے کارو کاری کے متعلق حقائق جمع کر کے اس پروگرام میں 22 ۔ 23 اور 24 جولائی 2004 کو کچھ حقائق پیش کئے تھے ۔ میں ان پروگراموں میں سے اقتباسات پیش کر رہا ہوں۔

بلوچستان کے مشہور سیاستدان اور قبائلی سردار اکبر بگٹی نے کہا کہ “کارو کاری کوئی انوکھی چیز نہیں ہے ۔ یہ ہمارے لئے اچھے رسم و رواج ہیں ۔ ہم اس سے ایک قدم بھی پیچھے نہیں ہٹ سکتے ۔ ۔ ۔ ان رسموں سے تمام قبیلوں کی عزت برقرار رہتی ہے اور تمام قبیلے مل کر اس کی حمایت کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ یہاں عورت کو پتہ ہے کہ کارو کاری کی سزا کیا ہے ۔ وہ خود اپنے آپ کو پھانسی کے پھندے پر لٹکاتی ہے ۔ یہ بھی اک باعزت طریقہ ہے کہ وہ خود اپنے آپ کو ختم کر لیتی ہے بجائے اس کے کہ خاوند اس کو مارے یا بھائی اس کو مارے” ۔

ڈی پی او سکھر غلام شبیر شاہ نے کہا کہ “بات دراصل یہ ہے کہ ہم تو سیدھا سیدھا قتل کا کیس دائر کرتے ہیں ۔ ۔ ۔ آگے چل کر عدالت میں کیس چلتا ہے تو جس قانون کے مطابق کیس چلتا ہے وہ قانون انگریز کا بنایا ہوا ہے جس سے وہ لوگ فائدہ اٹھاتے ہیں ۔ قبیلہ والے کہتے ہیں کہ ہمارا بیٹا یا کوئی بھی مرد جذ بات میں آ گیا تھا اسلئے اس نے یہ کام کیا کیونکہ اس نے اپنی عورت اور دوسرے مرد کو قابل اعتراض حالت میں دیکھا جس کی وجہ سے وہ رہ نہ سکا اس نے یہ کام کر دیا”۔

اندرون سندھ سے لالہ اسد پٹھان لکھتے ہیں ۔”سندھ کے ضلع گھوٹکی کے علاقہ کھچو کے گرد و نواح میں ایک قبرستان ہے جسے کاریوں کا قبرستان کہتے ہیں جو کہ دو ڈھائی سو سال پرانہ ہے اور اس میں سینکڑوں خواتین بغیر کفن اور نماز جنازہ کے دفن کی گئی ہیں ۔ ۔ ۔ جس کی بیوی کسی دوسرے مرد کے ساتھ بھاگ جائے تو اس کی بیوی کے گھر والے اس کو 75000 روپیہ بطور جرمانہ عطا کرتے ہیں اور اگر وہ ادا نہ کریں تو اس کی بیوی کے تمام گھر والے کارو کاری کے زمرے میں آتے ہیں اور لڑکے والے جس کو چاہیں مار سکتے ہیں ۔ میری عمر اس وقت 35سال ہے ۔ اس رسم کے ذریعہ میری زندگی میں جو قتل کئے گئے ہیں ان میں خواتین کی تعداد نوّے اور سو کے درمیان اور مردوں کی پندرہ اور بیس کے درمیان ہے ۔ ۔ ۔ یہاں کے سردار بہت اچھے ہیں ۔ ایک دو وقت کی روٹی دے دیتے ہیں بس ہم اس پر خوش ہیں کیونکہ ہم ان کی رعایا ہیں اور کارو کاری کا فیصلہ سردار کرتے ہیں اور جب سزا دینی ہوتی ہے تو لکھ کر لگا دیتے ہیں کہ اس قبیلے کے اتنے روپے اس قبیلے نے دینے ہیں اگر رقم ادا نہ کرے تو مرنے کے لئے تیار ہو جائیں”۔

جنوبی بلوچستان میں ایک مقدمے کی تفتیش کرنے والے تحصیلدار نے بتایا کہ” ایک شخص کو دوسری شادی کی خواہش تھی لیکن اس کی پہلی بیوی اجازت نہیں دے رہی تھی ۔ چنانچہ بیوی سے چھٹکارہ پانے کے لئے اس نے ایک منصوبہ تیار کیا اور نزدیکی فیکٹری میں کام کرنے والے اپنے ایک جان پہچان والے شخص کو اپنے گھر آنے کی دعوت دی ۔ مہمان جیسے ہی گھر میں داخل ہوا۔ اس نے مہمان اور اپنی بیوی کو گولی مار کر ہلاک کر دیا” ۔ تحصیلدار کے مطابق قاتل اس لئے بچ جاتے ہیں کہ موقع کی کوئی شہادت عام طور پر نہیں ہوتی اور یہ کام انتہائی اشتعال کی حالت میں ہوا ظاہر کیا جاتا ہے ۔

دریائے سندھ کےقریب رہنے والے لوگ کاری قرار دی گئی عورت کو قتل کر کے اس کی ناک کاٹ کر نعش دریا میں بہا دیتے ہیں تا کہ آگے چل کر کوئی اس کی کٹی ناک دیکھ کر سمجھ جائے کہ کاری ہے اور نعش دریا سے باہر نکال کر دفن نہ کرے ۔کاری کے قتل ہونے کے بعد کارو قرار دیئے گے مرد سے اچھی خاصی رقم لی جاتی ہے۔ ستم ظریفی یہ ہے کہ بےگناہ شادی شدہ عورت قتل ہونے پر اس کے والدین خاموشی اختیار کر لیتے ہیں اور کہتے ہیں کہ بیٹی کا نصیب ہی یہی تھا ۔

دیگر رَسمیں

لوگوں نے بہت سے رَسم و رواج کو اِسلامی کا نام دے دیا ہوا ہے اور ان رسم و رواج کو وہ اللہ اور اس کے آخری نبی صلِّی اللہُ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم سے زیادہ عزیز رکھتے ہیں جبکہ اسلام رسم و رواج کی مخالفت کرتا ہے اور انسان کو صرف اللہ اور اُس کے آخری نَبی کی اِطاعت کا حُکم دیتا ہے ۔ عرس ۔ چراغاں ۔ محفل میلاد ۔ کُونڈے بھرنا ۔ گیارہویں کا ختم ۔ میلادالنبی کا جلوس ۔ محرم کا جلوس ۔ شام غریباں وغیرہ ۔ لمبی فہرست ہے اور دن بدن لمبی ہوتی جا رہی ہے ۔ جُوں جُوں سائنس ترقی کرتی جارہی ہے ہماری رسُوم بھی ترقی کر رہی ہیں ۔ دس بارہ سال پہلے شادی سے پہلے قرآن خوانی کا رواج شروع ہوا ۔ ہمارے محلہ میں ایک لڑکی کی شادی ہونا تھی ۔ میری بیوی کو پیغام آیا کہ مہندی والے دن قرآن خوانی اور درس ہوگا ۔ وہ خوش ہوئی کہ خرافات چھوڑ کر قرآن کی تلاوت کریں گے ۔ وہاں سے بیوی واپس آئی تو چہرہ سرخ منہ پھُلایا ہوا ۔ پوچھا کیا ہوا ؟ کہنے لگی قرآن شریف ابھی بمشکل پڑھا کہ بلند آواز سے پاپ موسیقی شروع ہوگئی ۔ میں وہاں سے بھاگ آئی ہوں ۔ کھانے پینے کے لئے روک رہے تھے میں معذرت کر کے آگئی ۔

آجکل مسجد میں نکاح پڑھانے کا فیشن شروع ہے ۔ مسجد میں نکاح پڑھانا اچھی بات ہے لیکن ہوتا کیا ہے کہ پہلے دُولہا اور چند لوگ نماز مسجد میں پڑھتے ہیں ۔ نماز کے بعد نکاح پڑھایا جاتا ہے ۔ اس کے بعد سب گھروں کو جا کے تیار ہو کر فور یا فائیو سٹار ہوٹل یا ویڈنگ ہال کا رُخ کرتے ہیں جہاں کھانے کے بعد ناچ گانے سمیت دنیا کی ہر خرافات ہوتی ہے ۔

بھارتی فلمیں دیکھ دیکھ کر ان میں دکھائی گئی ہندوؤں کی شادی کی بہت سی رسمیں بھی اپنا لی گئی ہیں ۔ مہندی کے نام سے دُولہا دُلہن کو اکٹھے بٹھا کر اُن کے سرّوں پر سے پیسے وارنا ۔ شادی شدہ خوش باش عورتوں کا اُن کے سروں پر ہاتھ پھیرنا یا اُن کے گِرد طواف کرنا اور اُن کے اُوپر کچّے چاول پھینکنا ۔ اب شائد کپڑوں کو گرہ لگا کر آگ کے گرد پھیرے لگانا اپنانا باقی رہ گیا ہے ۔ ایک نیک خاندان کی لڑکی کی منگنی کے بعد شادی اس لئے نہ ہوئی کہ ہونے والے دولہا کی والدہ شادی سے ایک دن پہلے مہندی کی رسم کرنا چاہتی تھیں جس میں وہ چار سوہاگنوں کی رسم بھی کرنا چاہتی تھیں ۔ لڑکی کی والدہ نے تفصیل پوچھی تو پتہ چلا کہ اس میں لڑکے اور لڑکی کو ساتھ ساتھ بیٹھا دیا جاتا ہے پھر چار شادی شدہ عورتیں جن کے خاوند زندہ ہوتے ہیں اور وہ اپنے گھروں میں خوش ہوتی ہیں لڑکی لڑکے کے گرد طواف کرتی جاتی ہیں اور لڑکی لڑکے پر کچے چاول پھینکتی جاتی ہیں ۔ لڑکی کے گھر والے غیر شرعی رسُوم کے مخالف تھے اس لئے منگنی ٹوٹ گئی ۔

دینی کُتب کیا کہتی ہیں

میں نے جو پڑھا ہے اُس کے مطابق مرجانے والوں کےلئے دعائے مغفرت کرنا [جسے عام طور پر فاتحہ کہا جاتا ہے] یا اللہ کے نام پر خیرات کرنا نہ صرف ایک اچھا عمل ہے بلکہ کارِ ثواب ہے اور ایسا بلا قیدِ تاریخ یا دِن کرتے رہنا چاہیئے ۔ یہ عمل کسی کی صحتیابی ۔ کامیابی یا ویسے ہی کسی مسلمان [خاص کر اپنے رشتہ دار یا دوست ] کےلئےکیا جائے تو بھی ٹھیک ہے ۔ اگر کھانا پکا کر یا کھانے کی کوئی چیز محلہ داروں ۔ رشتہ داروں اور غریبوں میں بانٹ دی جائے تو اُس میں بھی کوئی قباحت نہیں بشرطیکہ کوئی تخصیص نہ کی جائے ۔گڑبڑ اُس وقت ہوتی ہے جب اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی کے نام کی بجائے خیرات [یا نذر نیاز} کو کسی اور زندہ یا مردہ کے نام سے منسوب کیا جائے ۔

واللہ َاعْلَم بِالصّوَاب

ہم میں سے جو نماز پڑھتے ہیں وہ صرف فرض یا واجب نماز (بغیر سُنّتوں اور نوافل) میں ایک دن میں بیس مرتبہ اِھْدِنَا صِّرَاطَ المُسْتَقِیْمَ کہتے ہیں جس کا مطلب ہے دکھا ہم کو راہ سیدھی ۔ کبھی ہم نے سو چا ہے کہ ہم مانگتے کیا ہیں اور کرتے کیا ہیں ؟ اللہ ہمیں سیدھی راہ پر چلنے کی توفیق عطا فرمائے آمین ۔

اکثریت ایسا نہیں کرتی

یہ حقیقت ہے کہ مسلمانوں کی اکثریت متذکّرہ بالا رسمیں نہیں کرتی لیکن ایسی خلافِ شرع رسوم کو روکنے کی کوشش بھی نہیں کی جاتی ۔ محفلِ میلاد شائد کسی زمانہ میں عام لوگوں تک رسُول اللہ صَلّی اللہُ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کی حیاتِ مبارکہ کے متعلق آگاہی کے لئے شروع کی گئی ہوگی مگر ہمارے انحطاط کے ساتھ ساتھ وہ ایک رواج اور فیشن زیادہ اور حیاتِ طیّبہ کا سبق بہت کم رہ گئی ہے ۔ اب ان محفلوں میں وہ چیزیں ہوتی ہیں جو اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی اور اُس کے رسُول صَلّی اللہُ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کی ہدایات کی خلاف ورزئی کے ذُمرے میں آتی ہیں ۔ محفلِ میلاد یا میلادالنّبی کے جلوس میں حُبِ رسُول اللہ صَلّی اللہُ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کا اِظہار کرتے ہوئے محبوب یعنی رسول صلِّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کے قول و فعل اور محبوب کے معبُود یعنی اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی کے احکام کی خلاف ورزی کی جاتی ہے ۔ رسول اللہ صَلّی اللہ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کے اسواءِ حسنہ اور اللہ سُبحَانُہُ وَ تَعَالٰی کی شان بیان کرنا نہ صرف مُستحب بلکہ عبادت ہے ۔ پھر کیوں نہیں ہم اِس فعل کےلئے ہر ماہ یا ہر ہفتے مجالس کرتے جس سے لوگوں کو دین سے آگاہی حاصل ہو ۔ بجائے اسکے کہ ہم رسول اللہ صَلّی اللہُ علَیہِ وَ اٰلِہِ وَ سَلّم کے نام سے منسوب کر کے ایسی محفلیں لگائیں جن میں ہم اُنہی کی تعلیمات کے خلاف کام کریں ۔

میں نے جو کچھ لکھا ہے اِس سے ہرگز یہ مُدعا نہیں کہ ہمارے مُلک میں سب لوگ خراب ہیں ۔ نہیں ایسا بالکل نہیں ہے ۔ میرے اندازہ کے مطابق ایک تہائی لوگ ٹھیک ہیں مگر ان میں کچھ جاگ رہے ہیں باقیوں کو جگانے کی ضرورت ہے ۔ دوسری تہائی اچھائی کی حوصلہ افزائی سے ٹھیک ہو سکتے ہیں اور تیسری تہائی کو ٹھیک کرنا ہو گا ۔ جب پہلی تہائی پوری طرح جاگ اٹھے گی اور دوسری تہائی کی حوصلہ افزائی کرے گی تو یہ دو تہائیاں مل کر تیسری تہائی کو ٹھیک کر سکتی ہیں

مصائب کا حل

موجودہ ظالمانہ نظام سے چھٹکارا پانے کے لئے سب سے پہلے ہمیں خود اپنا محاسبہ کرکے اپنے آپ کو ٹھیک کرنا ہو گا ۔ جب ہم اپنے آپ کو دین اسلام پر صحیح طور کاربند کر لیں تو اس کے بعد حکومت یعنی اسمبلیوں اور سینٹ سے خود غرض ۔ اوباش ۔ لُٹیرے اور رشوت خور لوگوں کو نکالنا ہو گا چاہے وہ سردار ہوں ۔ وڈیرے ہوں یا جنرل ہوں ۔ کارخانہ دار ہوں یا تاجِر ہوں یا ہمارے دوست یا رشتہ دار ہوں ۔

دیانتدار لوگ الیکشن کیوں نہیں لڑ تے ؟

آج کل صورت حال یہ ہے کہ کوئی بے لوث خدمت کرنے والا دیانت دار شخص اسمبلی کے انتخابات میں حصّہ نہیں لیتا ۔ وجہ یہ ہے کہ دیانت دار شخص نے اسمبلی کا رُکن بن کے حرام مال کمانا نہیں ہوتا تو پھر وہ کیوں اپنی حلال کی کمائی الیکشن پر ضائع کرے ۔ دوسری طرف عوام بھی اِس غَلَط فہمی میں مبتلا ہیں کہ اسمبلی کا رُکن اُن کے جائز و ناجائز سب کام کروانے کیلئے ہوتا ہے ۔ چنانچہ اچھے لوگ الیکشن میں حصہ لینے سے کتراتے ہیں ۔ دیانت دار لوگ الیکشن کے لئے آمادہ اُس وقت ہوں گے جب الیکشن کے وقت ہم سب یعنی عوام ذاتی فائدوں کی بجائے اجتمائی بہتری کا سوچتے ہوئے ۔

اول ۔ سچے اور دیانت دار اُمیدوار نامزد کریں ۔
دوم ۔ اپنے نامزد کردہ اُمیدواروں کا روپیہ خرچ کرائے بغیر رضاکارانہ طور پر بھاگ دوڑ کر کے انہیں کامیاب کرائیں ۔

وما علینا الالبلاغ ۔ اللہ سبحانہ و تعالی ہمیں اپنے آپ کو درست کرنے اور اجتماعی بہتری کے کام کرنے کی توفیق عطا فرمائے ۔ آمین ۔

اگر کوئی کتابت کی غَلَطی ہو گئی ہو یا کم عِلمی کے باعث میں کوئی بات غَلَط لکھ گیا ہوں یا صحیح طرح لکھ نہیں پایا ہوں تو میں اللہ الرَّحْمٰن و الرَّحِیم سے مُلتجی ہوں کہ اپنی رحمت کے سہارے مجھ پر کرم کرتے ہوئے درگذر فرمائے ۔

میری قارئین سے اِلتجاء ہے کہ وہ بھی میرے حق میں دعا فرمائیں ۔ جَزَاکَ اللہِ خَیْرٌ

3 thoughts on “5.3۔دین رویّہ رواج قانون

  1. تنویرعالم قاسمی

    http://www.inikah.com کی پیشکش

    شب قدر کی عظمت اور ہماری ذمہ داریاں

    حضرت عائشہ رضی اللہ تعالی عنہا حضور پرنور صلی اللہ علیہ وسلم سے نقل فرماتی ہیں کہ شب قدر کو رمضان کے آخری عشرہ کی طاق راتوں میں تلاش کرو، ایک دوسری حدیث میں حضرت ابو زر رضی اللہ عنہ فرماتے ہیں کہ میں نے حضورپر نور صلی اللہ علیہ وسلم سے عرض کیا کہ کیا شب قدرنبی کے زمانے کے ساتھ رہتی ہے یا بعد میں بھی ہوتی ہے؟ حضور صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ قیامت تک رہیگی،میں نے عرض کیا رمضان کے کس حصہ میں ہوتی ہے آپ نے فرمایا کہ عشرہ اول وعشرہ آخر میں تلاش کرو،پھر میں نے عرض کیا کہ یہ تو بتادیجئے کہ عشرہ کو کون سے حصہ میں ہوتی ہے،حضور نے فرمایا کہ جس میں خفگی تھی مہینے کے آخر کی سات راتوں مین تلاش کرو،بس اس کے بعد کچھ نہ پوچھو۔
    امام ابو حنیفہ کا قول ہے کہ شب قدرتمام رمضان میں دائر رہتی ہے،قرآن کریم میں آیا ہے انا انزلناہ فی لیلت القد“کہ بیشک ہم نے قرآن پا ک شب قدر میں اتارا ہے۔یعنے قرآن شریف کو لوح محفوظ سے آسمان دنیا پراس رات میں اتارا ہے،یہ ہی بات اس رات کیلئے کافی فضیلت تھی کہ قرآن جیسی عظمت والی کتاب اس میں نازل ہوی چہ جائیکہ اس میں اور بہت سے برکات وفضائل شامل ہوگئے۔
    نبی صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد منقول ہے کہ شب قدر میں جبرئیل علیہ السلام فرشتوں کے ایک گروہ کے ساتہ اتر تے ہیں ،اور جس شخص کو ذکر عبادت میں مشغول دیکھتے ہیں اس کے لئے رحمت کی دعا کرتے ہیں
    مفسر قرآن علا مہ ابن کثیرومشقی فرماتے ہیں کہ اس کو پوشیدہ رکھنے میں حکمت یہی ہے کہ اس میں طالب،طلب وشوق سے پورے رمضان میں عبادتوں کا اہتمام کریں گے ۔
    شب قدر کے بارے میں قطعی خبر اس لئے انہیں دیگئی کہ کو ئی شخص اس رات پر ہی بھروسہ نہ کر لے،اور ایس نہ کہے کہ میں نے اس رات میں جو عمل کر لیا وہ ہزار مہینے سےبہتر ہے،چنانچہ اللہ تبارک وتعا لی نے مجھکو بخش دیا،مجھے درجہ عطا ہوا میں جنت میں داخل جاؤنگا ایسا خیال اسے سست نہ بنادے،اور وہ اللہ سے غافل نہ ہو جائے اور ایسا کرنے سے دینا وی امیدیں اس پر غلبہ پالیں گی اور وہ اسے ہلاک کردینگی یہی وجہ ہے کہ اللہ تعالی نے لوگوں کو عمر کے بارے میں بے خبر رکھا ۔
    اللہ کے رسول صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ لوگوں کو پانچ چیزوں سے پوشیدہ رکھا گیا ہے۔ لوگوں کی عبادت پر اللہ تعالی نے اپنی رضامندی ظاہر کرنے کو۔ گناہ پر اپنے غضب اور غصہ کے ظاہر کرنے کو،وسطی نماز کو دوسری نمازوں سے ،اپنی دولت کوعام لوگوں کی نگاہوں سے، اور رمضان کے مہینے میں شب قدر کو۔
    شب قدر کی رات بڑی قدر کی رات ہوتی ہے، بزرگ حضرات، والدین اپنے اپنے حلقے میں نوجوان بچوں کو اور صر دنیا کی تعلیم میں مگن طالب علم بچوں کو اس رات کی اہمیت کو واضح کریں اور اس بارےمیںضروری ہدایتیں اور مشورے دیں کہ اس رات کو جاگ کر کیا کرنا ہے ،کیسے عبادت کرنا ہ کیاکیا مانگنا اورکس طرح توبہ کر کے اپنے آپ کو یقین کی حد تک کہ اپنا دل بھی عبادت اور ریاضت میں مشغول ہوجائے کہ یہ رات پھر ہم کو نصیب ہوگی کہ نہیں!
    اس بارے میں ذرا غور تو کیجئے۔
    تنویر عالم قاسمی
    tanveeralamqasmi@yahoo.co.in
    جاری کردہ:ہیڈآفس http://www.inikah.com
    #42,Nandi durga road, Bangalore,46-India
    cell:9945631954

  2. جاویداقبال

    السلام علیکم ورحمۃ وبرکاتہ،
    جزاک اللہ خیر۔ ماشاء اللہ بہت ہی پرمغزمضمون تحریرکیاہے۔ اس میں سمجھنےاورسوچنےکی بہت سی باتیں ہیں۔ ایسی باتیں باربارہونی چاہیں کیونکہ انسان بھول جاتاہےاوراللہ تعالی آپ کی تحریر بازوکواورترقی دے۔ آمین ثم آمین
    اورمیں نےبھی اپنی کم علمی کی بدولت کےنام مسلمان کی چتا سےمضمون لکھاتھاجوکہ انڈیاکےمیڈیاوارکےلیےتھاکہ ہمارےبچےکسطرح انڈیاکےدیوانےہورہےہیں۔

    والسلام
    جاویداقبال

  3. افتخار اجمل بھوپال Post author

    جاويد اقبال صاحب
    مجھے جو ميرے اساتذہ نے پڑھايا يا ميں نے خود مطالعہ کيا ميری کوشش رہی ہے کہ دوسروں تک اپنے ٹوٹے پھوٹے الفاظ ميں پہنچا دوں ۔ مسلمان ہونے کے ناطے يہ ميرا فرض ہے

Leave a Reply

Your email address will not be published. Required fields are marked *

:wink: :twisted: :roll: :oops: :mrgreen: :lol: :idea: :evil: :cry: :arrow: :?: :-| :-x :-o :-P :-D :-? :) :( :!: 8-O 8)

This site uses Akismet to reduce spam. Learn how your comment data is processed.