مدینہ منوّرہ کی محبت

اُنہوں نے مجھے مدینہ منوّرہ سے رخصت کر دیا،

میں نے بہت عذر کیا کہ میرا یہاں سے ہلنے کو جی نہیں چاہتا لیکن وہ نہ مانے، فرمانے لگے پانی کا برتن بہت دیر تک آگ پر پڑا رہے تو پانی اُبل اُبل کر ختم ہو جاتا ہےاور برتن خالی رہ جاتا ہے، دنیا داروں کا ذوق شوق وقتی اُبال ہوتا ہے، کچھ لوگ یہاں رہ کر بعد میں پریشان ہوتے ہیں، ان کا جسم تو مدینے میں ہوتا ہے لیکن دل اپنے وطن کی طرف لگا رہتا ہے۔ اس سے بہتر ہے کہ انسان رہے تو اپنے وطن میں مگر دل مدینے میں لگا رہے

قدرت الله شہاب

قرآن شریف کا اَدَب

قرآن شریف کا اَدَب یہ ہے کہ ہم اسے اچھی طرح سمجھ کر اس پر صحیح طرح عمل کریں لیکن لوگ قرآن شریف کا اَدَب اِس طرح کرتے ہیں کہ اسے چُومتے ہیں آنکھوں سے لگاتے ہیں اور مخمل میں لپیٹ کر اُونچی جگہ پر رکھ دیتے ہیں تا کہ اُس کی بے اَدَبی نہ ہو

کیا قرآن شریف یا حدیث میں اِس قسم کی کوئی ہدائت ہے ؟

ہم میں سے زیادہ تر ایسے ہیں جنہوں نے قرآن شریف کو کبھی سمجھنے کی کوشش نہیں کی ۔ بہت کم ہیں جنہوں نے ترجمہ کے ساتھ پڑھا ہے اور اس سے بھی کم جو دین پر عمل کرنے کی کوشش کر تے ہیں

لوگوں نے قرآن و حدیث سے مبرّا (بعض مخالف) اصُول خُود سے وُضع کر لئے ہوئے ہیں اور اُن پر عمل کر کے جنّت کے خواہاں ہیں ۔ کتنی خام خیالی ہے

کچھ لوگ ایسے بھی ہیں جو 1426 سال پہلے آئے ہوئے دین کو آج کے ترقّی یافتہ دور میں ناقابلِ عمل قرار دیتے ہیں ۔ فانی انسان کے بنائے ہوئے سائنس کے کسی فارمولے کو (جو قابلِ تغیّر ہیں) رَد کرنے کے لئے ہمیں سالہا سال محنت کرنا پڑتی ہے لیکن الله سُبحانُهُ و تعالٰی کے بنائے ہوئے دین کو رَد کرنے کے لئے ہمیں اتنی عُجلت ہوتی ہے کہ اسے سمجھنے کی کوشش تو کُجا ۔ صحیح طرح سے پڑھتے بھی نہیں

میں یقین رکھتا ہوں کہ اگر عربی نہ بھی آتی ہو پھر بھی قرآن شریف کی عربی میں تلاوت ثواب کا کام ہے اور روزانہ تلاوت برکت کا باعث ہے ۔ میرا خیال ہی نہیں تجربہ بھی ہے کہ اگر عربی میں تلاوت باقاعدہ جاری رکھی جائے تو مطلب سمجھنے میں ممِّد ثابت ہوتی ہے ۔ لیکن جو بات میری سمجھ میں آج تک نہیں آئی وہ یہ ہے کہ ویسے تو ہم قرآن شریف کو سمجھنا برطرف کبھی کھول کر پڑھیں بھی نہیں اور نہ اس میں لکھے کے مطابق عمل کریں مگر کسی کے مرنے پر یا محفل رچانے کے لئے فَرفَر ایک دو پارے پڑھ لیں اور سمجھ لیں کہ فرض پورا ہو گیا

الله سُبحانُهُ و تعالٰی ہمیں قرآن شریف کو سمجھنے اور اس پر عمل کرنے کی توفیق عطا فرمائے آمین یا ربِ العالمین

خودی ؟

جس بندہء حق بیں کی خودی ہو گئ بیدار

شمشیر کی مانند ہے برّندہ و برّاق

اس کی نگہ شوق پہ ہوتی ہے نمودار

ہر ذرّے میں پوشیدہ ہے جو قوّت اشراق

اس مرد خدا سے کوئی نسبت نہیں تجھ کو

تو بندہء آفاق ہے ۔ وہ صاحب آفاق

تجھ میں ابھی پیدا نہیں ساحل کی طلب بھی

وہ پاکیء فطرت سے ہوا محرم اعماق

علامہ محمد اقبال

آج 29 فروری ہے

جو نیکی کرنا ہے آج ہی کر لیں

دوسروں سے بھلائی کر کے دعاؤں سے جھولی بھر لیں

دِل اپنا صاف کر لیں

جو ناراض ہیں اُنہیں راضی کر لیں

کسی کے بارے میں بُرا خیال دِل میں لانا بند کر دیں
دوسروں کی جِتنی ہو سکے خدمت کر لیں

مستحق لوگوں کی بھرپور مالی امداد کر لیں

آج کا دِن 4 سال بعد آئے گا
اُس وقت الله جانے کون زندہ ہو گا اور کون نہیں

انسان کا دِل

انسان کا قلب تو ایک ” سُپر ہائی وے“ کی مانند ہے

اس پر بادشاہی سواریاں بھی گزرتی ہیں،

امیر کبیر بھی چلتے ہیں،

غریب و فقیر بھی گزرتے ہیں،

خوبصورتوں اور بدشکلوں کی بھی یہی گزر گاہ ہےِ

نیکو کاروں، پارساؤں اور دین داروں کے علاوہ کافروں، مُشرکوں، مُجرموں اور گنہگاروں کے لئے بھی یہ شارع عام ہے

عافیت اسی میں ہے کہ اس شاہراہ پر جیسی بھی ٹریفک ہو، اس سے متوجہ ہو کر اسے بند کرنے یا اس کا رخ موڑنے کی کوشش کی گئی تو دل کی سڑک پر خود اپنا پہیہ جام ہونے کا خطرہ ہے

اس لئے راستے کا ٹریفک سگنل صرف سبز بتی پر ہی مشتمل ہوتا ہے، اس میں سرخ بتی کے لئے کوئی جگہ نہیں

قدرت الله شہاب

کامیابی

ملے گا منزل مقصود کا اسی کو سراغ

اندھیری شب میں ہے چیتے کی آنکھ جس کا چراغ

میّسر آتی ہے فرصت فقط غلاموں کو

نہیں ہے بندہء حر کے لئے جہاں میں فراغ

فروغ مغربیان خیرہ کر رہا ہے تجھے

تری نظر کا نگہباں ہو صاحب مازاغ

وہ بزم عیش ہے مہمان یک نفس دو نفس

چمک رہے ہیں مثال ستارہ جس کے ایاغ

 کیا تجھ کو کتابوں نے کور ذوق اتنا

صبا سے بھی نہ ملا تجھ کو بوئے گل کا سراغ

علامہ محمد اقبال

طریقہ جو صرف پاکستانیوں کا ہے

” آپ پاکستانی ہو کر انگریزی میں درخواست کیوں لکھتے ہیں ؟“ اُس نے میری جواب طلبی کی
میں نے معذرت کی ” مجھے عربی نہیں آتی اس لئے درخواست انگریزی میں لکھنا پڑی“۔
” آپ کی زبان کیا ہے؟“ افسر نے پوچھا
” اُردو“ میں نے جواب دیا

” پھر انگریزی کے ساتھ آپ کا کیا  رشتہ ہے؟“ افسر نے طنزیہ پوچھا

میرے لئے اس کے سوا کوئی چارہ نہ تھا کہ تسلیم کروں کہ انگریزی کے ساتھ میرا فقط غلامی کا رشتہ ہے

قدرت الله شہاب