انسانی حِس اور دماغ

انسان کی چھونے کی حِس دنیا کی حساس ترین چیز سے زیادہ حساس ہے

انسان کا دماغ دنیا کے سب سے زیادہ پیچیدہ اور طاقتور کمپیوٹر سے زیادہ پیچیدہ ہے انسان کے دماغ میں ایک کھرب (100000000000) اعصاب کے خُلیئے ہیں

پس (اے انسانو اور جِنو) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟

آدمی کا کردار اور اللہ کی نعمت

سورت 17 ۔ بنی اسراءیل (یا الاِسرآء) ۔ آیت 36 ۔ اور (اے بندے) جس چیز کا تجھے علم نہیں اس کے پیچھے نہ پڑ ۔ کہ کان اور آنکھ اور دل ان سب (جوارح) سے ضرور باز پُرس ہوگی ‏

ہر صحتمند آدمی کا جسم  روزانہ خُون کے ایک کھرب (100000000000) سُرخ خُلیئے پیدا کرتا ہے جب ہم کسی چیز کو چھُوتے ہیں تو 200 کلو میٹر فی گھنٹہ کی رفتار سے پیغام دماغ کو جاتا ہے 

پس (اے انسانو اور جِنو) تم اپنے پروردگار کی کس کس نعمت کو جھٹلاؤ گے ؟

ایک دعا

اے خاصہ خاصان رسل وقت دعا ہے

اُمت پہ تیری آ کے عجب وقت پڑا ہے
جو تفرقے اقوام کے آیا تھا مٹانے

 اس دین میں خود تفرقہ اب آ کے پڑا ہے
جس دین نے غیروں کے تھے دل آ کے ملائے

اس دین میں اب بھائی خود بھائی سے جدا ہے
جس دین کی حجت سے سب ادیان تھے مغلوب

اب معترض اس دین پہ ہر ہرزہ سرا ہے
چھوٹوں میں اطاعت ہے نہ شفقت ہے بڑوں میں

 پیاروں میں محبت ہے نہ یاروں میں وفا ہے
دولت ہے نہ عزت نہ فضیلت نہ ہنر ہے

اک دین ہے باقی سو وہ بے برگ و نوا ہے
گو قوم میں تیری نہیں اب کوئی بڑائی

پر نام تیری قوم کا یاں اب بھی بڑا ہے
ڈر ہے کہیں یہ نام بھی مٹ جائے نہ آخر

مدت سے اسے دورِ زماں میٹ رہا ہے
فریاد ہے اے کشتی اُمت کے نگہباں

بیڑا یہ تباہی کے قریب آن لگا ہے
کر حق سے دعا اُمت مرحوم کے حق میں

خطروں میں بہت جس کا جہاز آ کے گھِرا ہے
ہم نیک ہیں یا بد ہیں پھر آخر ہیں تمہارے

نسبت بہت اچھی ہے اگر حال بُرا ہے
تدبیر سنبھلنے کی ہمارے نہیں کوئی

ہاں ایک دعا تری کے مقبول خدا ہے

مذاق میں گناہ

ٹی وی چینلز کھُمبیوں کی طرح اُبھرے اور جنگلی گھاس کی طرح پھیل گئے ۔ بازی جیتنے کی دوڑ میں خبر ساز ۔ ملمع ساز اور جُگت باز ماہرین بھرتی کئے گئے ۔ اتنے سارے کھیل تماشے یکدم شروع ہوئے تو حضرتِ انسان ان میں کھو کر رہ گیا ۔ اُس کا احساس جاتا رہا کہ جسے وہ جبِلّت یا حظِ مزاح سمجھ رہا ہے وہ انسانی اقدار کی تضحیک ہے ۔ پھر مرغوبیت اتنی بڑھی کہ اس فعل کا دہرانا اپنے ذمہ لے لیا ۔ چنانچہ ٹی وی کے پھیلائے یہ جراثیم پہلے فیس بُک پر پہنچ کر عام ہوئے ۔ پھر واٹس اَیپ اور دوسرے سماجی ذرائع ابلاغ پر دہرائے جانے لگے ۔ ۔ ۔ پھر بجائے اس کے کہ درست رہنمائی کی جائے آفرین و مرحبا کے ڈونگرے برسائے جانے لگے یا پھر تُرکی بہ تُرکی دوسری انتہاء اختیار کی گئی

 کوئی پوچھے کہ اللہ کے بندوں اپنے آپ کو مسلمان سمجھتے ہو ۔ کم از کم قرآن شریف میں اللہ کے واضح طور پر لکھے احکامات کی خلاف ورزی تو نہ کرو

 سورت 4 ۔ النسآء ۔ آیت 148 ۔ اللہ اس بات کو پسند نہیں کرتا کہ کوئی کسی کو علانیہ بُرا کہے مگر وہ جو مظلوم ہو ۔ اور اللہ سب کچھ سنتا اور جانتا ہے سورت 49 ۔ الحجرات۔ آیت 11 ۔ اے ایمان والو ۔ مرد دوسرے مردوں کا مذاق نہ اڑائیں ۔ ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور نہ عورتیں عورتوں کا مذاق اڑائیں ممکن ہے کہ یہ ان سے بہتر ہوں اور آپس میں ایک دوسرے کو عیب نہ لگاؤ  اور نہ کسی کو بُرے لقب دو  ۔ ایمان کے بعد فسق بُرا نام ہے ۔ اور جو توبہ نہ کریں وہی ظالم لوگ ہیں

بُلبُل اور جُگنُو

ایک سبق آموز نظم جو ہم نے چھٹی جماعت میں پڑھی تھی

ٹہنی پہ کسی شجر کی تَنہا

بُلبُل تھا کوئی اُداس بیٹھا

کہتا تھا کہ رات سر پہ آئی

اُڑنے چُگنے میں دن گزارا

پُہنچُوں کس طرح آشیاں تک

ہر چیز پہ چھا گیا اندھیرا

سُن کر بُلبُل کی آہ و زاری

جُگنُو کوئی پاس ہی سے بَولا

حاضر ہوں مدد کو جان و دل سے

کِیڑا ہوں اگرچہ میں ذرا سا

کیا غم ہے جو رات ہے اندھیری

میں راہ میں روشنی کروں گا

اللہ نے دی ہے مُجھ کو مَشعَل

چَمکا کے مجھے دِیا بنایا

ہیں لوگ وہی جہاں میں اچھے

آتے ہیں جو کام دوسروں کے